Maktaba Wahhabi

154 - 548
باب سوم ایمان بالقدر کا بیان اللہ تعالیٰ کے حکم اور اندازہ کرنے کو قضا وقدر کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ساری خلق کو پیدا کرنے سے پہلے ہر مخلوق کا اندازہ کر کے حکم لگادیا کہ فلاں چیز ایسی ہو گی، فلاں شخص یہ کام کرے گا اور اس کا آغاز وانجام یوں ہو گا۔ جاندار چیز جو ارادہ کرتی ہے، وہ بھی اللہ ہی پیدا کرتا ہے اور ہر بے جان چیز کا خالق بھی وہی ہے۔ اس بات کو ماننے اور اس پر یقین لانے کو ’’ایمان بالقدر‘‘ کہتے ہیں۔ پھر جو شخص اس کے برخلاف جانے کہ بندہ اپنا کام آپ پیدا کرتا ہے اور جو کچھ کرتا ہے وہ خود کرتا ہے یا کوئی کام اللہ کے ارادے کے خلاف کرتا ہے یا فلاں بات جو دنیا میں ہوئی اس کا حال پہلے اللہ کو معلوم نہ تھا، ایسے شخص کو ’’قدریہ‘‘ کہتے ہیں، یعنی وہ تقدیر کا منکر ہے، جو بندے میں خالقیت کی صفت بتاتا ہے، اسے اپنی تدبیر سمجھتا ہے اور تقدیر کو کوئی شے نہیں جانتا۔ اسی طرح جو شخص یہ بات جانے کہ آدمی کو اپنے کام کا مطلقاً کچھ ذرا بھی اختیار نہیں ہے، جو کچھ اس سے ہوتا ہے، نیک یا بد، وہ سب اللہ ہی کرتا ہے، بندہ اور ہر جاندار مجبور محض اور بے اختیار صرف ہے، یہاں تک کہ کفر اور گناہ بھی اللہ ہی کراتا ہے، ایسے شخص کو ’’جبریہ‘‘ کہتے ہیں، یعنی جبر کا معتقد ہے۔ یہ دونوں عقیدے غلط ہیں، بلکہ آدمی فی الجملہ اختیار رکھتا ہے، جس کے سبب سے بعض کام کرنا اور بعض نہ کرنا اس سے ظاہر ہوتا ہے۔ آدمی کے چلنے اور پتھر کے حرکت کرنے میں فرق ظاہر ہے کہ آدمی خود چل سکتا ہے اور ٹھہر سکتا ہے اور پتھر نہ خود چل سکے، نہ ٹھہر سکے، اسی طرح خود بہ خود ہاتھ ہلانے والے اور جس کے ہاتھ میں رعشہ ہے، دونوں میں تفاوت واضح ہے کہ رعشے والا اپنا ہاتھ ہلنے سے تھام نہیں سکتا اور دوسرا تھام سکتا ہے، اسی جگہ سے اور اسی ارادے کی بنا پر اللہ نے امرو نہی فرمائی، نیکی پر اجر، بدی پر سزا مقرر کی۔ اگر اتنا سا اختیار بھی نہ ہوتا تو دنیا میں چور اور خونی کی سزا کیوں مقرر ہوتی؟ اللہ کی طرف سے پیغمبر کیوں آتے؟ قرآن کیوں اترتا اور شرع کیوں معین ہوتی؟ سب کو مجبور سمجھ کر معذور کہا جاتا۔ یقینا ہر کام اللہ
Flag Counter