Maktaba Wahhabi

156 - 548
فائدہ مقرر کیا تھا۔ اسی طرح اگر کسی کی صورت بری ہو تو اس پر مضحکہ نہ کرے، کیونکہ اس شخص کا کوئی قصور نہیں ہے، اللہ نے جیسا چاہا ویسا بنایا، پھر اس پر ہنسنا اور طعن کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کریہہ المنظر شخص کو دیکھ کر کہتے کہ اس کا خالق اور ابو الدرداء دونوں کا خالق ایک ہے۔ آدمی کے سارے اعمال کا خالق اللہ ہے نہ کہ آدمی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْن﴾ [الصافات: ۹۶] [حالانکہ تمھیں اور تمھاری بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے] وہ اگر پیدا نہ کرے اور روک لے تو کسی بندے کی یہ مجال نہیں کہ اس کام کو کر سکے۔ آدمی بہت کام کرنا چاہتا ہے، مگر نہیں ہو سکتے اور بعض کام کرنا نہیں چاہتا اور وہ بے اختیاری میں ہو جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اعمال کا خالق اللہ ہے نہ کہ بندے، اب اس کے ہاتھ سے جو کام اچھا بن پڑے یا اور کسی سے اس کے حق میں کچھ سلوک ہو تو اللہ کا شکر ادا کرے، باوجود یکہ خالقِ فعل وہ تھا لیکن ہم کو جزاے خیر کا وعدہ دیا، یہ اس کا سرا سر احسان ہے۔ جب سب کا خالق اللہ ٹھہرا تو پھر کسی کے حرکات وسکنات پر ہنسنا اور عیب پکڑنا اللہ کے ساتھ سخت بے ادبی ہے۔ پیدا کرنا اور بات ہے اور بندے کا کاسب ہونا اور بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْئِ وَ قَلْبِہٖ﴾ [الأنفال: ۲۴] [اور جان لو کہ اللہ روک لیتا ہے آدمی سے اس کے دل کو] معلوم ہوا کہ آدمی کا چاہا اللہ کے چاہے کے مقابلے میں نہیں چل سکتا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ [التکویر: ۲۹] [تم جب ہی چاہو کہ اللہ چاہے جو سارے جہان کا رب ہے] یعنی دل میں ارادہ ڈالنا بھی اسی کا کام ہے، کچھ اپنے بس کی بات نہیں ہے تو اب اسی اکیلے پر بھروسا کرنا چاہیے، اپنی ناقص عقل کو دخل نہ دے، ورنہ ایمان جاتا رہے گا۔ ایمان بالقدر کی اہمیت: 1۔حدیثِ علی مرتضی رضی اللہ عنہ میں مرفوعاً آیا ہے کہ کوئی بندہ مومن نہیں ہوتا ہے جب تک کہ چار چیزوں پر ایمان نہ لائے۔ اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، میں اس کا رسول
Flag Counter