Maktaba Wahhabi

161 - 548
اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔[1] 11۔حدیثِ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ایک مُشتِ خاک سے بنایا جو ساری زمین سے لی تھی، سو ان کی اولاد اسی زمین کے انداز پر آئی۔[2] کوئی لال، کوئی ہرا، کوئی کالا، کوئی اس کے درمیان، کوئی نرم، کوئی کڑا، کوئی ناپاک، کوئی ستھرا، یعنی رنگ وعادت میں آدمیوں کا تفاوت اسی اللہ کی تقدیر سے ٹھہرا۔ 12۔حدیثِ ابن عمر رضی اللہ عنہما میں فرمایا کہ اللہ نے خلق کو اندھیرے میں بنایا، پھر اس پر اپنا نور ڈالا، تو جس کو وہ نور پہنچا، اس نے سیدھی راہ پائی اور جس کو نہ پہنچا وہ گمراہ ہوا، اسی لیے میں یہ کہتا ہوں کہ قلم اللہ کے علم پر خشک ہو گئے۔[3] یعنی جو کچھ اس کو لکھنا تھا وہ بموجب حکم خدا لکھ چکے، اب کچھ نہیں لکھتے۔ اسلام اللہ کا نور ہے، ازل میں جس پر چمکا، وہ مسلمان ہوا اور جس پر نہ چمکا وہ کافر رہا۔ 13۔ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ اللہ اپنی مخلوق میں ہر بندے کی پانچ چیزوں سے فارغ ہو چکا ہے۔ اس کے اجل سے، اس کے عمل سے، اس کے رہنے کی جگہ سے، اس کی چال سے اور اس کے رزق سے۔ اس کو احمد نے روایت کیا ہے۔[4] یعنی فلاں روز، فلاں وقت، فلاں جگہ اس طور پر مرے گا اور زندگی میں فلاں فلاں کام کاج کرے گا۔ فلاں فلاں جگہ رہے گا اور فلاں چال ڈھال اختیار کرے گا، اس کو اتنا رزق ملے گا اور اتنا کھائے گا، سو یہ پانچوں باتیں جس طرح اللہ نے پہلے سے ٹھہرا دی ہیں ویسا ہی ہوتا ہے، اس سے کم وبیش نہیں ہوتا۔ معلوم ہوا کہ آدمی توکل پر رہے، نری تدبیر پر نہ جم جائے اور دنیا داری میں زیادہ درد سری نہ کرے۔ جو قسمت کا لکھا ہے، وہ آگے ہی مقرر ہو چکا ہے، اس میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔ تقدیر کا فیصلہ: 14۔حدیثِ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ میں فرمایا ہے:
Flag Counter