Maktaba Wahhabi

165 - 548
کتابیں تھیں۔ فرمایا: بھلا تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہیں؟ ہم نے کہا: آپ بتائیں! فرمایا: یہ کتاب رب العالمین کی طرف سے آئی ہے، اس میں بہشتیوں کے نام اور ان کے باپ اور کنبے کے نام لکھے ہیں، پھر ان کے آخر پر مہر ہے، سو اب کچھ بڑھے اور نہ کم ہو گا۔ پھر بائیں ہاتھ کی کتاب سے متعلق کہا کہ یہ کتاب رب العالمین کی طرف سے ہے، اس میں دوزخیوں کے نام ہیں اور ان کے باپ اور کنبے کے نام ہیں، پھر ان کے آخر پر ختم ہے تو اب یہ زیادہ ہو گا اور نہ کم۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: تو پھر عمل کس لیے ہے، اگر ایسی ہی بات ہے کہ اس سے فراغت ہو چکی ہے؟ فرمایا: تم سیدھی راہ پر چلو اور بندگی کرو، اس لیے کہ بہشتی کا خاتمہ بہشتیوں کے کام پر ہوتا ہے، اگرچہ وہ کچھ کام کرے اور دوزخی کا خاتمہ دوزخیوں کے کام پر ہوتا ہے اگرچہ وہ کچھ کام کرے، پھر ہاتھوں کی طرف اشارہ کیا اور ان دونوں کتابوں کو اپنے پیچھے پھینک دیا، پھر فرمایا: تمھارا رب بندوں سے فارغ ہو گیا۔ ایک گروہ جنت میں ہے اور ایک گروہ دوزخ میں ہے۔ اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔[1] یعنی اللہ نے اہلِ جنت اور اہلِ نار کے نام الگ الگ ان کی ولدیت و ذات کے نشان سمیت لکھ کر سب ناموں کے آخر میں میزان دے کر جملہ کردیا ہے کہ اب اس میں کچھ کمی وبیشی نہیں ہوتی، اللہ نے پہلے ہی سے ہر ایک شخص کا بہشتی اور دوزخی ہونا مقرر کر دیا ہے، وہ اسی کے موافق کام کرتا ہے، سو تم تو سیدھے چلے جاؤ۔ کیا کوئی چیز تقدیر کو بدل سکتی ہے؟ 20۔ابو خزامہ کے باپ نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: بھلا یہ دم اور دوا جو ہم کرتے ہیں اور یہ بچاؤ جس سے ہم بچتے ہیں، یہ کیا اللہ کی تقدیر پھیر دیتی ہیں؟ فرمایا: یہ خود اللہ کی تقدیر ہے۔ اس کو احمد و ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔[2] یعنی تقدیر کی دو قسم ہے۔ ایک مبرم کہ جو مقرر کر دیا گیا ہے، ویسا ہی ہو گا۔ دوسری معلق کہ اگر یوں کرے گا تو ایسا ہو گا اور نہ کرے گا تو یوں ہو گا، مثلاً دعا مانگے تو بیمار اچھا ہو اور نہ مانگے تو نہ ہو، سو
Flag Counter