Maktaba Wahhabi

180 - 548
کچھ ضروری نہیں، بلکہ لاکھوں منزلوں سے اللہ تعالیٰ تمھارے درود مجھ کو پہنچا دے گا۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر معین تاریخ میں جماؤ کرنا درست نہیں ہے، جس طرح لوگ حج کے بعد سال حج میں یا حج کے قبل ماہ معین میں اطرافِ عالم سے چل کر اجتماع کرتے ہیں یا مجرد مدینے کا مستقل سفر بلا حج وعمرہ اختیار کرتے ہیں، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کے لیے یہ بات بہ نص قطعی منع ہے تو اور کسی کی قبر پر عرس اور میلہ کرنا اور تاریخ مقرر میں قبر کی زیارت کو جانا بالاولیٰ منع ٹھہرا۔ اگر یہ بات جائز ہوتی تو سب سے زیادہ اس بات کا استحقاق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہوتا۔ دوسرے یہ کہ خوشی کے آلاتِ قبر کے سبب سے جمع کرنا درست نہیں ہے، جیسے جو راگ وغیرہ لوگ عرس میں کرتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ مردے کو ثواب پہنچانا ہے تو دور سے دعا واستغفار کرے، قربِ قبر کیا ضروری ہے؟ پھر لوگوں کا یہ خیال کہ جہاں درود پڑھا جاتا ہے یا مولد کا ذکر ہوتا ہے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک آتی ہے، بالکل غلط ہے۔ اسی بنیاد پر جاہل مسلمان مشرک وضع وہاں جو کھانے وغیرہ پر فاتحہ پڑھتے اور عطر وپان وپانی رکھتے ہیں، یہ سب لغو اور باطل عقیدہ ہے۔ عورتوں کے لیے زیارتِ قبور کا حکم: 3۔حدیثِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ میں فرمایا ہے: (( لَعَنَ اللّٰہُ زَوَّارَاتِ الْقُبُوْرِ )) [اللہ نے کثرت سے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے] اس کو احمد، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔[1] اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو قبر کے پاس قبر کی زیارت کے لیے جانا حرام ہے۔ قبروں کو سجدہ گاہ بنانا: 4۔عطا بن یسار رحمہ اللہ سے مرفوعاً مروی ہے: (( اَللّٰہُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِيْ وَثَناً یُّعْبَدُ، اِشْتَدَّ غَضَبُ اللّٰہِ عَلٰی قَوْمِ نِ اتَّخَذُوْا قُبُوْرَ أَنْبِیَائِہِمْ مَسَاجِدَ )) [2] (رواہ مالک)
Flag Counter