Maktaba Wahhabi

187 - 548
حکمِ خدا و رسول کے درجے کو نہ پہنچے گا، پھر ان تینوں طرح کے مسائل میں ضعیف وہ مسئلہ ہے جو مجتہدوں نے اپنے قیاس سے بہ حکم ﴿فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ﴾ [الحشر: ۲] [پس آنکھ والو! عبرت حاصل کرو] نکالا ہے۔ قیاس میں عقل کو دخل ہے، اسی وجہ سے بھول چوک بھی ہو جاتی ہے، لہٰذا اکثر مسائل میں خود ابو حنیفہ وشافعی وغیرہ رحمہا اللہ نے رجوع کیا ہے۔ غرض کہ اصل چیز جو واجب الاتباع ہے وہ قرآن وحدیث ہے۔ جن کو اللہ نے کتاب وسنت میں کامل مہارت عطا کی ہے، وہ ہر مسئلہ قرآن وحدیث سے نکال کر بتا سکتے ہیں، انھیں اجتہاد کی حاجت ہوتی ہے نہ قیاس کی، کیونکہ کتاب وسنت جملہ احکام کے لیے کفایت کرتے ہیں، تا قیام قیامت کلیات وعمومات ادلہ ونصوص جملہ مسائل کے واسطے کفایت کرتے ہیں۔ کتب فتاویٰ فقہ میں جو لاکھوں مسئلے عقل سے نکال کر لکھ رکھے ہیں، اکثر بے دلیل، محض قال وقیل یا اغلوطات ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کاموں سے منع فرمایا ہے۔[1] جب قرآن وحدیث سے مجتہد کا خلاف ثابت ہو جائے تو کتاب وسنت کے موافق عمل کرے، پھر تقلید حرام بلکہ شرک فی الرسالہ ہے۔ تقلید کا معنی اور حکم: تقلید کے معنی یہ ہیں کہ دلیل دریافت کرنے کے بغیر کسی کے حکم کو مان لینا اور یہ نہ معلوم کرنا کہ اس نے یہ حکم کس سبب سے اور کس دلیل سے کیا ہے۔ اکثر لوگ مولویوں اور درویشوں کے بے سند کام اور کلام کو سند پکڑتے ہیں اور اس کی تحقیق نہیں کرتے، گویا ان کو حاکم شرع جانتے ہیں، سو ایسی تقلید بدعت وحرام ہے اور جو شخص قرآن وحدیث کی دلیل واضح ہونے کے بعد تقلید کو واجب کہتا ہے، اس کے ایمان کا کچھ ٹھکانا نہیں ہے، وہ خالص مشرک ہے۔ اس نے اللہ کے سوا اور حاکم ٹھہرائے، حالانکہ اللہ نے فرمایا ہے: ﴿اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ﴾ [الأنعام: ۵۷] [اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں ہے] عالم فاضل ہو یا ملا مخدوم مشائخ۔ ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معصوم ہیں وہ حکمِ خدا کے خلاف نہیں بتاتے، بلکہ جو حکم پیغمبر مشورے کی راہ سے بتائیں، اس میں بھی آدمی کو اختیار ہے، چاہے تو نہ کرے، پھر کسی اور بادشاہ، امیر، مولوی، مشائخ، پیر، شہید، فقیہ کی کیا ہستی ہے جو حکمِ خدا کی مخالفت کے باوجود اس کو مانے؟ اللہ کے حکم کو نہ ماننا اور کسی مولوی، درویش کا حکم ماننا شرک جلی ہے اور اللہ
Flag Counter