Maktaba Wahhabi

192 - 548
رسوم کا آغاز کیسے ہوا؟ اصل بات یہ ہے کہ بعضے اگلے نیک لوگوں نے بعضے مباح کام اس وقت میں مصلحت سمجھ کر کسی فائدے کے واسطے کرنا تجویز کیا تھا، پھر لوگ اس فائدے کے سبب ان کاموں کو کرنے لگے، پھر ہوتے ہوتے خواص وعوام میں ان کاموں کا رواج ہوگیا، عوام کے نزدیک اس فائدے کا لحاظ نہ رہا اور وہ کام باقی رہ گئے، پھر رواج کے سبب رسم پڑ گئی، پھر یہاں تک نوبت پہنچی کہ اگر کوئی شخص اس سے بہتر طریقہ اسی کام میں زیادہ فائدے کا نکالے تو کوئی اس کو نہ مانے۔ مثلاً اگلے عقل مندوں نے مُردوں کو ثواب پہنچانے کے لیے کھانا پکا کر خیرات کرنا مقرر کیا تھا، اصل مسئلے کے مطابق صدقہ خیرات رشتہ مند محتاجوں کو پہلے دینا چاہیے، سو وہ لوگ محتاج ناتے والوں کو وہ خیرات کا کھانا اول دیا کرتے تھے، کیونکہ بھوکے کو کھانا کھلانا بڑا ثواب ہے اور قرابت والے کو کھلانا صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی ہے، پھر رفتہ رفتہ یہ نوبت پہنچی کہ اس کھانے میں اب خیرات وثواب کا لحاظ مطلق نہ رہا، لوگ فقط رسم و رواج کے سبب کھانا پکا کر برادری میں حصے مقرر کر کے تقسیم کرتے ہیں۔ وہ رشتہ دار گو غنی اور دولت مند ہو، مگر کھانے کا حصہ نہ پہنچنے پر شکوہ کرتا ہے۔ پھر اگر کوئی خیرات صدقے کا نام لے کر کرے تو بعض غیرت دار قبول نہ کریں اور وہ کھانا نہ لیں تو اب یہ رسم ٹھہر گئی، خیرات صدقہ نہ رہا۔ غیر شرعی رسوم: پھر اب اگر کوئی نقد یا کپڑا خیرات کر کے یا اور طرح سے مُردے کو ثواب پہنچائے اور رسم کے طور پر کھانا نہ کرے تو اتنا مطعون ہو کہ نہ کرنے پر اتنا مطعون نہ ہو۔ اسی طرح کھانے پر فاتحہ پڑھنا اور شادی وغمی میں رسوم کرنا رائج ہو گیا ہے، مثلاً اگر کوئی فرنگی یا چمار یا بھنگی کے گھر کا کھانا کھائے یا پانی پی لے تو مطعون ہو اور ہنود کے گھر کا کھانا پانی کوئی برا نہیں سمجھتا، سبب یہ ہے کہ اُس کا رواج نہیں اور اس کی رسم پڑ گئی ہے، حقیقت میں دونوں ایک ہیں، یا اگر کوئی مسلمان دکان دار کنہیا کا جنم کرے تو مطعون ہو، جب کہ دوسری طرف مسلمان کہلاتے ہوئے اپنے گھر دیوالی ہولی کرتے ہیں تو کوئی برا نہیں سمجھتا، اس کا سبب یہ ہے کہ اس کا رواج نہیں اور اس کی رسم پڑ گئی ہے، حقیقت میں دونوں ایک ہیں، یا اگر کوئی اپنے لڑکے کو جنیو[1] پہنائے تو مطعون ہو اور لڑکوں کی چوٹیاں رکھتے ہیں،
Flag Counter