Maktaba Wahhabi

194 - 548
کرتے ہیں اور برا نہیں جانتے۔ بعض جگہ اگر کوئی ہنود کی نوکری کرے تو مطعون ہو اور نصاریٰ کی نوکری کرتے ہیں اور برا نہیں سمجھتے، یا اگر کوئی نجوم وانگریزی پڑھے تو مطعون ہو اور ریاضی، منطق، ہیئت پڑھتے ہیں اور برا نہیں سمجھتے۔ ان سب مواضع میں سبب یہی ہے کہ اُن کا رواج نہیں اور یہ رسمیں پڑ گئی ہیں۔ رسوم کی بنیاد: الغرض اسی طرح کی ہزاروں رسمیں ہیں جن میں ایک جہان گرفتار ہے اور رواج کے سبب اس کی برائیاں خیال میں نہیں آتی ہیں، حالانکہ ان سب رسوم وعادات کی بنیاد سفاہت وبے عقلی اور عاقبت نااندیشی پر ہے۔ جس کو اللہ نے عقلِ مستقیم اور قلبِ سلیم بخشا ہے، وہ جانتا ہے کہ ’’ما أشبہ اللیلۃ بالبارحۃ‘‘ یہ رات، گذشتہ رات سے کتنی مشابہ ہے۔ پھر اگر کوئی عالم دیندار یا عارف تقویٰ شعار سمجھائے تو اس کو وہی جواب ملتا ہے جو اگلے کافر کہتے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَآ اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَآئَنَا اَوَلَوْ کَانَ اٰبَآؤُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ شَیْئًا وَّ لاَ یَھْتَدُوْنَ﴾ [البقرۃ: ۱۷۰] [اور جب کبھی ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو ان ہی رسموں پر چلیں گے جن پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے، گو ان کے آبا واجداد نہ عقل رکھتے ہوں اور نہ راہ کی خبر] کیسی مسلمانی؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کافروں کو سمجھاتے کہ شرک وبدعت کی رسمیں جو تم میں رائج ہیں، ان کو چھوڑو اور قرآن پر چلو، جسے اللہ نے اتارا ہے تو وہ یہی عذر بد تر از گناہ پیش کرتے۔ اس بے عقلی کا کیا ٹھکانا ہے کہ دین میں تو باپ دادوں کی رسم و راہ کو سند پکڑیں اور دنیا میں ان کے فعل کو حجت نہ ٹھہرائیں؟ حالانکہ دنیا کا فائدہ کچھ چیز نہیں ہے اور دین کی تحقیق نہ کرنے میں ایمان برباد ہو جاتا ہے، مثلاً کسی بزرگ نے ایک بار کپڑے کی سوداگری میں نقصان اٹھایا ہو تو وہ راہ اس کی اولاد اختیار نہ کرے گی، یا کسی کا باپ بے راہ دریافت کیے چلا تھا اور بہک گیا تو اس کا بیٹا وہ راہ نہ چلے گا، تو جس مقام پر دنیا کا نقصان ہو، آدمی وہاں باپ دادے کی راہ چھوڑ دیتا ہے تو دین کے نقصان میں تو چاہیے کہ اور بھی زیادہ اس راہ کو چھوڑ دے۔ عجب مسلمانی ہے کہ اللہ و رسول کی راہ و رسم چھوڑ کر باپ
Flag Counter