Maktaba Wahhabi

212 - 548
علی رضی اللہ عنہ کے بعد وصیتِ علی رضی اللہ عنہ کے مطابق مغیرہ بن نوفل[1] سے نکاح کیا۔ آپ[2] صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے دوسرے اور کسی کے تیسرے خاوند تھے۔ یہی حال ازواج و دخترانِ رسول علیہا الصلوۃ والسلام اور ان کی نواسیوں اور سیدانیوں کا تھا۔ ام رومان مادر عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح اول عبد اللہ بن سخبر سے ہوا تھا، پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ سے ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔ اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا پہلے جعفر رضی اللہ عنہا کے نکاح میں تھیں، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا۔ ان سے محمد بن ابی بکر پیدا ہوئے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد انھوں نے علی رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا۔ یہ حال شیخانیوں کا تھا جن سے شرافت کی بنیاد ہے، پھر جو کوئی ان کے کام اور رسم وعادت کو برا جانے تو اس کے ایمان میں نقصان ہے۔ وہ اشراف نہیں کمینہ ہے، اس لیے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج، بنات، نواسیوں اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی بیبیوں سے کسی کی عزت، آبرو اور غیرت بڑھ کر نہیں، بلکہ ان کے برابر بھی نہیں ہے۔ اب اس کو عیب جاننے والا اور بے عزتی و بے غیرتی سمجھنے والا کافر ہے۔ ایسا شخص اپنے آپ کو شیخ سید شریف نہ سمجھے، بلکہ راجپوت رانگھڑ کہلائے اور مسلمانی کا نام نہ لے۔ چھٹی رسم: یہ ہے کہ جب کوئی برادری میں مر جاتا ہے تو عورتیں چِلاّ کر روتی پیٹتی ہیں اور جو عورت ماتم پرسی کو آتی ہے وہ بھی اس نوحے میں شریک ہوتی ہے، پھر کسی کے یہاں تین دن اور کہیں سات دن، دس روز یا چالیس دن کہیں کہیں چھے چھے ماہ تک یہی معمول رہتا ہے اور مُردے کا بیان کرتے ہیں، حالانکہ نوحہ کرنا حرام ہے اور سوگ یہ ہے کہ اچھے کپڑے نہ پہنے، خوشبو نہ ملے، سرمہ نہ لگائے، کسی کی شادی میں شریک نہ ہو اور اپنے گھر میں بیٹھی رہے۔ سو شرعاً جس عورت کا خاوند مر جائے وہ چار مہینے دس دن تک اپنا سنگار نہ کرے، اس کے بعد اس کے لیے ممانعت نہیں۔ خاوند کے سوا کسی دوسرے کے لیے تین دن سے زیادہ سوگ نہیں ہے۔ ماتم پرسی کی حقیقت اتنی ہی ہے کہ جب کسی کا کوئی مرجائے تو اس کے دوست آشنا رشتے داروں کو چاہیے کہ اس کے پس ماندگان کو تسلی اور دلاسا دیں اور سمجھا دیں کہ صبر کرو اور بے صبری سے ثوابِ آخرت برباد نہ کرو۔ ماتم پرسی بھی مرنے سے تین روز کے بعد لغو
Flag Counter