Maktaba Wahhabi

258 - 548
تیرھویں فصل شفاعت اہلِ سنت کا ایمان ہے کہ قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بڑی شفاعت اللہ تعالیٰ کے اذن و حکم سے تمام متقین و فاسقین اور کفار و مشرکینِ اہلِ محشر کے لیے عام ہو گی۔ جس کے سبب لوگوں کو شدید رنج وملال اور بے چینی سے تخفیف و افاقہ ہو گا۔[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری شفاعت نافرمان مومنین اور کبیرہ گناہوں کے مرتکب لوگوں کو جہنم سے نکالنے کی غرض سے ہو گی، جب کہ وہ آگ میں جل کر کوئلے بن چکے ہوں گے۔[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے شفاعت کے لیے کھڑے ہوں گے اور سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ قرآن کی جن آیات میں شفاعت کی نفی کا ذکر ہے، اس سے مراد وہ شفاعت ہے جو اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادے اور اس کے حکم کے بغیر واقع ہو۔ چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ لاَ یَتَکَلَّمُوْنَ اِِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا﴾ [النبأ: ۳۸] [وہ کلام نہیں کریں گے، مگر وہی جسے رحمان اجازت دے گا اور وہ درست بات کہے گا] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا مستحق وہی شخص ہے جو دل سے پورے خلوص کے ساتھ ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ کہتا تھا، توحید پر ثابت قدم تھا اور شرک سے پوری نفرت رکھتا تھا۔ یہ ایمان لانا بھی ضروری ہے کہ اہلِ ایمان و توحید کا ایک گروہ حساب و کتاب کے بغیر جنت کا راہی بنے گا۔ دوسرا گروہ ہلکا پھلکا حساب دے کر بلا تکلیف و عذاب بہشت میں داخل ہو گا۔ تیسرا گروہ ان گناہ گاروں کا ہو گا جو جہنم میں داخل ہو کر مختلف عذابوں سے دو چار ہو کر نجات پائے گا اور پھر
Flag Counter