Maktaba Wahhabi

285 - 548
میں ان کے متعلق کسی طرح کی گفتگو ہوئی ہے تو ایسی چیزوں سے اپنی فکر کو علاحدہ رکھنا اور انھیں لا یعنی سمجھ کر چھوڑ دینا ہی بہتر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدمی کا کمالِ اسلام اس چیز کو ترک کرنا ہے جو بے کار ہے۔‘‘[1] اجتہاد اور مجتہدین: مسائل شرعیہ اور عقلیہ میں کبھی تو مجتہد چوک جاتا ہے اور کبھی صحیح بات کہتا ہے۔ غلطی کھانے والے مجتہد کو ایک حصہ اجر و ثواب اور صحیح رائے والے مجتہد کو دوہرا اجر و ثواب ملتا ہے۔ اگر ہر مجتہد کا درست رائے والا ہونا تسلیم کیا جائے تو خطا کار مجتہد اور درست رائے والے مجتہد کے لیے حدیث میں بیان ہونے والی اجر و ثواب کی تقسیم بے کار اور رائیگاں ہو جائے گی۔ امت محمدیہ کا کوئی دور مجتہد سے خالی نہیں رہے گا: کوئی زمانہ مجتہد سے خالی نہیں رہتا۔ دلائل کا اظہار کرنے والے شخص سے کسی وقت اور کسی حال میں زمین خالی نہیں رہے گی، اگرچہ ایسے لوگ قلیل اور بہت ہی تھوڑے کیوں نہ ہوں۔ امتِ محمدیہ میں قیامت تک ایک حق کی طرف راہنمائی کرنے والے ایسے گروہ کا رہنا لازم و ضروری ہے جو لوگوں کو سچی اور سیدھی راہ بتایا کرے۔ صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’میری امت کا ایک گروہ قیامت تک حق پر غالب رہے گا، مخالفین ان پر غلبہ نہ پا سکیں گے۔‘‘[2] اجتہاد میں آسانی کے باوجود مقلدین کا جمود کیوں؟ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے دین کا کچھ فہم عطا کیا ہے، وہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجتہدین متاخرین پر جس طرح اجتہاد آسان کر دیا ہے، متقدمین مجتہدین کو یہ آسانی اور سہولت میسر نہ تھی، کیونکہ ان کے پاس اجتہاد کا کل ضروری سامان فراہم نہیں تھا، چنانچہ اسی وجہ سے متقدمین کو متاخرین کے برعکس اجتہاد کرنے میں نہایت محنت اور دقت اٹھانا پڑتی تھی، جبکہ متاخرین کو اجتہاد کے لیے ہر طرح کی سہولت میسر ہے۔ رہے مقلدین تو چونکہ وہ تقلید اور قیاس پر اڑے ہوئے اور قرآن و حدیث چھوڑ کر دوسرے علوم و فنون میں پڑے ہوئے ہیں، اس لیے ان کو وہی کچھ دکھائی دیتا ہے جس میں وہ مبتلا ہیں اور اپنا الزام دوسروں کے سر رکھتے ہیں۔
Flag Counter