Maktaba Wahhabi

288 - 548
خلیفہ کا تقرر اور اس کی ذمے داریاں: اہلِ اسلام پر ایسے خلیفہ کا مقرر کرنا واجب ہے جو احکامِ اسلام جاری کرے، حدود شرعیہ کا نفاذ کرے، سرحدوں کی حفاظت کا بندوبست کرے، لشکر کو آراستہ رکھے، صدقات و زکات وصول کرتا رہے، باغیوں اور لٹیروں کی سرکوبی کرتا رہے اور جمعہ وعیدین کا اہتمام کرے۔ اس کے علاوہ لوگوں کے درمیان جو تنازعات اور خصومات واقع ہوں، شریعت کے مطابق ان کا تصفیہ کرنا اور ضرورت کے تحت مال غنیمت وغیرہ کی تقسیم کرنا، جن کا انتظام و انصرام ہر ہر شخص سے نا ممکن ہے، باجماع امت ان چیزوں کا قائم کرنا امام پر واجب ہے۔ یہ وجوب سمعاً اور شرعاً ہے نہ کہ عقلاً۔ تفصیلی کتابوں میں امام کے لوازم و شرائط پوری تفصیل کے ساتھ درج ہیں۔ قیامِ خلافت کا طریقہ کار: خلافت اہلِ حل وعقد کی بیعت سے ثابت ہوتی ہے۔ اہلِ حل و عقد سے مراد وہ علما، روسا اور سردارانِ لشکر ہیں جو ادراک و شعور والے ہوں اور مسلمانوں کی مصلحت و منفعت پر عبور رکھتے ہوں، سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت اسی صورت سے منعقد ہوئی تھی۔ انعقادِ خلافت کا ایک طریقہ یہ ہے کہ خلیفہ اپنے بعد کسی معین شخص کو خلیفہ بنانے کی وصیت کر جائے، اس طرح اس شخص کو خلافت مل سکتی ہے، جیسے عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کہ ان کے لیے ابو بکر رضی اللہ عنہ نے وصیت کر دی تھی۔ یا خلافت کا قیام ایسے چھے آدمیوں کے مشورے سے ہو جن میں سے ہر ایک خلافت کی اہلیت اور لیاقت رکھتا ہو اور ان میں سے ایک شخص کو خلافت کے لیے مخصوص کر دیا جائے جس طرح عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق چھے آدمیوں کے مشورے سے قائم ہوئی۔ آخر پر علی رضی اللہ عنہ کی خلافت اہلِ حل و عقد حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بیعت سے مقرر ہوئی، اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نظر میں علی رضی اللہ عنہ کے سوا خلافت کا حق دار کوئی نہ تھا، اسی لیے کبار مہاجرین و انصار نے علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کو ممنوع اور ناجائز قرار دیا۔ یہ چاروں حضرات خلفاے راشدین کہلاتے ہیں، جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے دین محمدی کو شوکت و عزت عطا کی، کفار و مشرکین کو ہر جگہ شکست و ذلت سے دو چار کیا، اساسِ اسلام کو استحکام اور حق کے جھنڈوں کو رفعت دی۔ ان لوگوں کو اور جو ان کے پیروہیں، ان کو خلیفہ بنا کر اللہ سبحانہ و تعالیٰ
Flag Counter