Maktaba Wahhabi

351 - 548
اللہ کی الوہیت وربوبیت میں کسی چیز کو شریک کرتا ہے، وہ مشرک ہوتا ہے، اس کا کوئی عمل صالح نہیں ہے، اگرچہ وہ اپنے اعمال کو صالحہ خیال کرے۔ ایسے اعمال اس کے شرک کے ساتھ کسی کام نہیں آئیں گے۔ عقیدہ توحید کی اہمیت: صاحبِ توحید اگر اعمال میں قاصر وناقص بھی ہوگا تو یہی توحید اس کا کامل ترین عمل اور افضل ایمان ہے، اسی لیے توحید کو طاعتوں کی چوٹی اور نیک عملوں کی بنیاد کہاجاتا ہے۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی مرفوع حدیث میں آیا ہے: ’’جس نے اس بات کی گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں اور عیسی علیہ السلام بھی اس کے بندے اور رسول ہیں اور اللہ کے کلمے سے پیدا ہوئے، جس کو اس نے مریم کی طرف ڈالا تھا، عیسی علیہ السلام اللہ کی روح ہیں اور بے شک جنت اور جہنم حق ہیں تو اللہ اس کو جنت میں داخل کرے گا، خواہ اس کا عمل کیسا ہی ہو۔‘‘ (أخرجہ الشیخان والترمذي) [1] صحیح مسلم کی ایک روایت میں یوں بھی آیا ہے: ’’ جس نے ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ‘‘ کی گواہی دی، اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کو حرام کر دے گا۔‘‘[2] موحد کا مقام: معلوم ہوا کہ توحید کے پختہ ہونے کے بعد موحد کا انجام لا محالہ جنت ہے، جو اللہ کا فضل و کرم و رحم ہے۔ توحید سے مراد یہی ہے کہ الوہیت کا اقرار اور شرک کا انکار ہو۔ توحید گناہوں کو ڈھا دیتی ہے، موحد کو جنت میں لے جاتی ہے اور آگ سے دور کردیتی ہے۔ جو شخص اللہ کی معبودیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتا ہے، اس پر جہنم حرام ہو جاتی ہے۔ جس طرح سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
Flag Counter