Maktaba Wahhabi

356 - 548
[اور جو کوئی اللہ پر توکل کرے تو وہ اس کو کافی ہے] یعنی مکروہ چیزوں کو حاجت کے باوجود محض اللہ کے اعتماد پر ترک کر دینا۔ رہا اسباب کا استعمال اور دوا علاج کرنا تو اگر غیر مکروہ طریقے پر ہو تو اس سے توکل میں کوئی خرابی نہیں آتی ہے۔ گفت پیغمبر بآواز بلند بر توکل زانوے اشتر بہ بند [پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے فرمایا ہے کہ اونٹ کے پاؤں باندھ کر توکل کرو] توحیدِ الٰہی اور فرائض کی بجا آوری پر جنت کی ضمانت: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں آیا ہے کہ ایک دیہاتی نے آکر عرض کی: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جب میں اسے کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو، فرض نماز پابندی سے ادا کرو، زکات دو اور رمضان کے روزے رکھو۔‘‘ اس نے کہا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں ان اعمال میں کچھ بڑھاؤں گا اور نہ کچھ کم کروں گا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَنْ سَرَّہٗ أَنْ یَّنْظُرَ إِلٰی رَجُلٍ مِنْ أَھْلِ الْجَنَّۃِ فَلْیَنْظُرْ إِلٰی ھٰذَا ))(متفق علیہ) [1] [جس کو جنتی آدمی دیکھنا اچھا لگے تو وہ اس شخص کو دیکھے] یہ حدیث اخلاصِ توحید اور اخلاص عمل کی دلیل ہے۔ جب یہ دونوں چیزیں کسی آدمی میں جمع ہوتی ہیں تو وہ شخص جنتی ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک نجدی شخص کا قصہ سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں آیا ہے کہ جب اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز، زکات اور روزے کا حکم دیا تو اس نے کہا: ’’اللہ کی قسم میں ان میں کمی بیشی نہیں کروں گا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ )) [2] (متفق علیہ) [اگر یہ شخص اپنی بات میں سچا ہے تو وہ نجات پا گیا ہے] فلاح وکامیابی والا ہونا جنتی ہونے کی دلیل ہے۔ معلوم ہوا کہ خالص عمل پر جنت ملتی ہے اور یہ اخلاص کی نعمتِ اہلِ توحید کے سوا کسی کو نصیب نہیں ہوتی ہے۔
Flag Counter