Maktaba Wahhabi

396 - 548
ہے، جسے شرک اکبر کہا جاتا ہے، اس کی وجہ سے غیر اللہ کے پجاریوں کا خون ومال حلال ہو جاتا ہے اور وہ ہمیشہ کے لیے جہنمی قرارپاتے ہیں۔ جب کسی کو دعوتِ توحید پہنچ گئی اور اس پر حجت قائم ہو گئی، لیکن پھر بھی وہ شرک پر جمارہا اور کفر کا اظہار کرتا رہا تو وہ کافر و مشرک ہوگیا۔ اب اس کی نجات کی کوئی صورت باقی نہیں رہی، سوائے اس کے کہ وہ توبہ کرے اور اسلام لائے۔ اگر نام کا مسلمان ہے تو تجدیدِ اسلام کرے۔ احادیثِ نبویہ میں کلمہ توحید کے لیے کچھ قیود وشروط بیان ہوئی ہیں۔ انسان جب ان میں غور کرے گا تو ضرور اپنی جان کی ہلاکت سے ڈرے گا۔ اس صورت میں شرک وکفر اور طغیان والوں کا کیا حال بنے گا؟ اس کے ذکر کی ضرورت نہیںہے،مثلاً توحید کی شروط میں ایک شرط یہ ہے کہ اللہ کی معبودیت میں کسی طرح کا شک و شبہہ نہ کرے، متکبر نہ بنے، راہِ اعتدال سے تجاوز کرکے ظلم و جور کی طرف مائل نہ ہو، کلمہ اس کو گناہوں سے روکے اور وہ کلمے کو اخلاصِ قلب سے کہے۔ بعض ائمہ نے کہا ہے کہ تم علم کی اس کی قیود سمیت حفاظت کرو، بلکہ ائمہ اربعہ نے تصریح کی ہے کہ مانعِ زکات یا تارکِ صلات یا تارکِ اذان یا تارکِ نمازِ عیدین سے قتال کرنا واجب ہے، اس لیے کہ یہ شعائرِ اسلام ہیں، پھر اس جگہ اہلِ شرک وکفر سے قتال میں کیا کلام ہو سکتا ہے؟ بلکہ بعض نے اس پر اجماع بھی نقل کیا ہے۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ وہ پانچ امور جن پر اسلام کی بنیاد ہے، ان میں سے جس کو بھی قدرت ہوتے ہوئے بلا عذر قصداً ترک کرے گا، احادیث صحیحہ کی روسے کافر ہو جائے گا، چاہے نماز کا ترک ہو یا زکات یا روزے یا حج کا۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان اعمال کے ترک سے کفر لازم آتا ہے تو توحید واخلاص کو ترک کرنے سے شرک کیوں لازم نہیں آئے گا؟ ساتواں درجہ: ساتواں درجہ یہ ہے کہ کوئی یہ کہے کہ یہ آیتیں اور حدیثیں ان کفار و مشرکین اور اصنام واوثان کے پجاریوں کے بارے میںآئی ہیں جو اللہ ورسول سے محاربہ ومخاصمہ کیا کرتے تھے، لہٰذا ان کا مصداق مومنین کو ٹھہرانا غلط ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مشرکین اولین اور مشرکین آخرین کے درمیان علت جامعہ (شرک باللہ) موجود ہے، پس دونوں کا حکم بلا فرق ایک ہی ہوگا، کیونکہ جامع موجود ہے اور فارق معدوم۔ اصول میں یہ قاعدہ مقرر ہو چکا ہے کہ عمومِ لفظ کا اعتبار ہوتا ہے نہ کہ خصوصِ سبب کا۔ سارے شرائع واحکام کا مدار اسی قاعدے پر ہے۔ حدیث میں آیا ہے:
Flag Counter