Maktaba Wahhabi

410 - 548
حوالے کیا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ظلم اور نا انصافی ہو گی؟ اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہیے کہ مخلوق میں کوئی کتنا ہی بڑے سے بڑا ہو، اللہ کی شان کے آگے وہ ایک ذلیل بندہ ہے۔ عقل ونقل دونوں اعتبار سے شرک سب عیبوں سے بڑا عیب ہے اور اس میں اللہ کے ساتھ بہت بڑی بے ادبی وگستاخی ہے۔ حدیث میں آیا ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: میں ساجھیوں میں بڑا بے پروا اور ان کی شرکت سے سخت بے زار ہوں۔ جو شخص کوئی عمل کرے اور اس میں کسی اور کو بھی میرا ساجھی بنائے تو میں اس کو اور اس کے شرکت والے عمل کو چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘[1] (رواہ مسلم عن أبي ھریرۃ) اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ کے لیے کوئی کام کرے، پھر ویسا ہی کام دوسرے کے لیے بھی کرے تو اس سے شرک ثابت ہو جاتا ہے اور مشرک کی کوئی عبادت وعمل اللہ کے یہاں مقبول نہیں ہوتا۔ شرک کی ممانعت بعثتِ انبیا کا اساسی مقصد ہے: اُبی بن کعب کی حدیث میں آدم علیہ السلام کی پشت سے ان کی ذریت کے نکالنے کا قصہ بیان ہوا ہے، جس کو امام احمد نے مطولاً روایت کیا ہے۔[2] تفاسیرِ قرآن میں بھی اس واقعے کو لکھا گیا ہے۔ اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ پاک نے عالمِ ارواح میں ہر شخص کو اصل توحید کا حکم دیا اور شرک سے منع کر دیا تھا۔ پھر سارے انبیا اسی کی تاکید و تعلیم کے لیے آئے اور تمام کتابیں اسی کے بیان میں نازل ہوئیں۔ مشہور قول کے مطابق ایک یا دو لاکھ چوبیس ہزار انبیا اور ایک سو چار آسمانی کتابوں کی تعلیمات اسی ایک نقطے پر مرکوز ہیں کہ لوگ توحید کو مکمل طور پر درست کریں، شرک سے بہت دور رہیں اور اللہ کے سوا کسی کو معبود نہ بنائیں۔ کسی حاکم سے متعلق سمجھیں کہ کسی چیز میں وہ تصرف کر سکتا ہے نہ کسی کو اپنا مالک وآقا بنائیں کہ اس سے اپنی مرادیں مانگیں اور اس کے پاس اپنی حاجت لے کر حاضری دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: (( لاَ تُشْرِکْ بِاللّٰہِ وَإِنْ قُتِلْتَ أَوْ حُرِّقْتَ )) [3] (رواہ أحمد)
Flag Counter