Maktaba Wahhabi

415 - 548
خیال میرے دل میں گزرتا ہے، وہ اس سے واقف ہو تا ہے یا جس وقت میں اس کو پکارتا یا یاد کرتا ہوں تو وہ میری مدد کرتا ہے؛ ان سب باتوں سے شرک ثابت ہو جاتا اور آدمی مشرک بن جاتا ہے۔ اس قسم کی سب باتیں شرک ہوتی ہیں اور اس کا نام ’’اشراک فی العلم‘‘ ہے، یعنی اللہ جیسا علم کسی اور کے لیے ثابت کرنا۔ یہ عقیدہ خواہ انبیا و اولیا یا کسی پیر ومرشد یا امام وامام زادے کے حق میں ہو یا کسی بھوت، پری اور شیطان خبیث کے بارے میں ہو، پھر خواہ یہ عقیدہ اس طرح پر ہو کہ یہ بات ان لوگوں کو اپنی ذات سے حاصل ہے یا اللہ کے دینے سے ملی ہے، بہر حال اس عقیدے سے شرک لازم ہوجاتا ہے، اس لیے کہ علم غیب اللہ کے لیے مخصوص ہے، مخلوق کو یہ علم دیا ہی نہیں گیا ہے۔ خود اللہ پاک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق فرمایا ہے: ﴿ وَ لَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوْٓئُ ﴾ [الأعراف: ۱۸۸] [اگر میں غیب کی باتوں کو جانتا تو بہت سی بھلائی حاصل کرلیتا اور مجھے تکلیف نہیں پہنچتی] جب نصوصِ قرآن بول رہی ہیں کہ سید المرسلینصلی اللہ علیہ وسلم بلکہ جبرئیل امین بھی غیب داں نہیں ہیں، تو پھر کسی اور نبی وولی کا یہاں کیا ذکر ہے؟ اشراک فی التصرف: دوسری بات یہ ہے کہ جہاں میں اپنے ارادے سے تصرف کرنا اور اپنا حکم جاری کرنا، اپنی خواہش سے مارنا جلانا، رزق کی کشادگی اور تنگی کرنا، تندرست رکھنا یا بیمار کر دینا، فتح اور شکست دینا، اقبال وادبار میں ڈالنا، مرادیں پوری کرنا، حاجتیں بر لانا، بلائیں ٹالنا، مشکل میں دستگیری کرنا، برے وقت میں آڑے آنا؛ یہ سب اللہ ہی کی شان ہے۔ اس کے سوا نبی ہو یا ولی، پیر ہو یا شہید، مرید ہو یا مرشد، بھوت ہو یا پری، کسی کی یہ شان نہیں ہے۔ اگر کوئی کسی کے لیے کائنات میں ایسا تصرف ثابت کرے، اس سے مرادیں مانگے اورمراد کی توقع پر نذر ونیاز بجالائے، منت مانے، مصیبت کے وقت اس کو پکارے، بلا ٹلنے کے لیے کسی پیر فقیر سے التجا کرے، تو ایسا شخص مشرک ہو جاتا ہے۔ اس شرک کو ’’اشراک فی التصرف‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی اللہ جیسا تصرف دوسرے کے لیے ثابت کرنا بالکل شرک ہے، چاہے یہ سمجھے کہ ان کاموں کی طاقت اس غیر اللہ کو خود بخود حاصل ہے یا اللہ نے یہ طاقت اس کو
Flag Counter