Maktaba Wahhabi

423 - 548
یہ کسی نبی کو معلوم ہے نہ ولی کو، نہ اپنا حال نہ دوسرے کا، ہاں وحی یا الہام کے ذریعے کسی کا اچھا یا برا انجام معلوم ہو جانا اور بات ہے، پھر بھی اس کی تفصیل معلوم ہونا، ان کے اختیار سے باہر ہے۔ اشراک فی التصرف کی مزید وضاحت: اشراک فی التصرف میں سے ایک یہ ہے کہ کسی کو ساری خدائی میں کسی کو نفع و ضرر پہنچانے کا مختار مانا جائے۔ سب کو چھوڑو، سب سے بہتر واکمل ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، خود ان کو اللہ نے یہ حکم دیا کہ آپ یہ بات کہہ دیں کہ میں تمھارے نفع ونقصان کا مالک نہیں ہوں۔ مجھ کو اللہ کے سوا ہر گز کوئی بچا سکتا ہے نہ میں اللہ کے سوا کوئی پناہ گاہ پا تا ہوں۔ یہ آیت سورۃ الجن [آیت: ۲۲] میں ہے۔ یہ آیت جب بتا رہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی شخص بلکہ اپنے نفع ونقصان کے مالک بھی نہیں ہیں تو پھر وہ دوسرا کون ولی، امام، شہید، پیر، مرید یا جن بھوت ایسا ہے جو کسی کا کچھ بھلا برا کر سکے؟ گویا یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ کہیں تم اس دھوکے میں نہ پڑنا کہ ہمارا پایہ بڑا مضبوط ہے، ہمارا وکیل بڑا زبردست ہے اور ہمارا شفیع بڑا محبوب ہے، لہٰذا ہم جو چاہیں سو کریں، وہ ہمیں اللہ کے عتاب سے بچالے گا، یہ بات بالکل غلط ہے۔ میں اپنے ہی لیے ڈرتا ہوں اور اللہ کے سوا کہیں اپنا بچاؤ اور پناہ نہیں پاتا تو دوسرے کو اللہ کی مرضی کے خلاف کیا بچا سکوں گا؟ سورت یونس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ وَ لَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُکَ وَ لَا یَضُرُّکَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ [یونس: ۱۰۶] [اے نبی! اللہ کے سوا ان کو نہ پکارو جو تمھیں فائدہ ونقصان نہ دیں، اگر تم نے ایسا کیا تو بیشک تم بے انصاف ہوئے] یعنی اللہ جیسے زبردست کے ہوتے کسی عاجز کو پکارنا جو نفع ونقصان کی طاقت سے بالکل محروم ہو، محض ظلم ونا انصافی ہے کہ ایسی بڑی ہستی کا مرتبہ ایسے عاجز کے لیے ثابت کیا جائے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث سنن ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’اے لڑکے! اللہ کو یاد رکھ تو وہ تجھے یاد رکھے گا، اس پر نگاہ رکھ تو اس کو اپنے سامنے پائے گا، جب
Flag Counter