Maktaba Wahhabi

425 - 548
کسی امیر یا وزیر کو کہیں دور سے پکارے کہ تو میری طرف سے فلاں بات بادشاہ کے حضور میں عرض کردے تو کیا اس آدمی کو اندھا یا دیوانہ نہیں کہا جائے گا؟ غرض کہ حدیث مذکور اس بات کی واضح دلیل ہے کہ بندہ اپنی ہر مراد اللہ ہی سے بلا واسطہ مانگے، ہر مشکل میں بلا وسیلہ اسی کی مدد چاہے اور یقین رکھے کہ تقدیر کا قلم ہر گز نہیں بدلتا اور قسمت کا لکھا کبھی نہیں مٹتا۔ ایک شبہہ: عوام کا یہ کہنا کہ اللہ نے اولیا کو یہ طاقت بخشی ہے کہ تقدیر کو بدل ڈالیں، جس کی تقدیر میں اولاد نہیں لکھی ہے، اس کو اولاد دیں، جس کی عمر تمام ہو چکی ہے اس کی عمر بڑھا دیں تو یہ بات بالکل شرک اور اللہ کے تصرف کو دوسرے کے لیے ثابت کرنا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کبھی اللہ کسی بندے کی دعا قبول کر لیتا ہے، مگر اس دعا کا قبول کرانا بندے کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ یہ دونوں باتیں کہ دعا کرنے کی توفیق ہوئی، پھر وہ دعا قبول ہو کر مراد ملی، تقدیر میں لکھی ہیں۔ تقدیر سے باہر دنیا میں کوئی کام نہیں ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مالک مختار ہے، چاہے از راہِ مہربانی وہ دعا قبول کرے یا حکمت کے تحت وہ دعا قبول نہ کرے، یہ سب اسی کی مرضی پر موقوف ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ ہر کسی کو چاہیے کہ اپنی حاجت اپنے رب سے مانگے، یہاں تک کہ نمک بھی اسی سے مانگے اور جوتی کا تسمہ جب ٹوٹ جائے تو وہ بھی اسی سے مانگے۔[1] (رواہ الترمذي) یعنی اللہ کو دنیا کے بادشاہوں کی طرح نہ سمجھے کہ بڑے بڑے کام تو وہ کرتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے کام نوکروں چاکروں کے حوالے کر دیتے ہیں، اس لیے رعایا کو اپنے کاموں کے لیے ان ملازمین سے التجا کرنی پڑتی ہے، لیکن اللہ پاک کے یہاں ایسا کارخانہ ایسا نہیں ہے، بلکہ وہ تو اتنا بڑا قادر مطلق ہے کہ ایک آن میں چھوٹے بڑے کروڑوں کام درست کر سکتا ہے، اس کی سلطنت میں کسی کی قدرت نہیں ہے، وہاں کسی کا تصرف ہے نہ کسی کا دخل، پس ضروری ہے کہ ہر چھوٹی بڑی چیز اسی سے مانگی جائے، کیونکہ اس کے سوا کوئی چھوٹی چیز دے سکتا ہے نہ بڑی عطا کر سکتا ہے۔
Flag Counter