Maktaba Wahhabi

431 - 548
دعا مانگتے ہیں، یہ الوہیت ومحبت میں شرک کے مرتکب ہیں۔ تیسرے وہ لوگ ہیں جو خود ان مُردوں سے دعا کرتے ہیں۔ یہ ربوبیت میں مشرک ہیں۔ اسی طرح غیر اللہ کو سجدہ کرنا یا اس کی قسم کھانا یا کسی کام کو غیر اللہ کی مشیت پر رکھنا یا اس کو پکارنا یا اس کا نام لے کر دعا کرنا شرک ہے۔ آیت کریمہ کے الفاظ ﴿اِیَّاکَ نَعْبُدُ﴾ میں عبادت سے مراد یہ ہے کہ سجدہ، توکل، انابت، تقوی، خوف وخشیت، رجا ورضا، توبہ، نذر، تسبیح، تکبیر، تہلیل، تحمید، تمجید، استغفار، سر منڈوانا، دعا، خشوع اور خضوع سب اللہ وحدہ کے لیے ہو، کسی اور کے لیے نہیں۔ شرک کی بنیادی اقسام: جو شرک ارادوں اور نیتوں میں ہوتا ہے، وہ ایک بحرِ بے کراں ہے، اس سے نجات پانا بہت دشوار ہے۔ جس نے غیر اللہ کے ارادے اور نیت سے کوئی عمل کیا، اس نے ﴿اِیَّاکَ نَعْبُدُ﴾ کا معنی نہیں سمجھا، کیونکہ شرک دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک وہ جس کا تعلق معبود کی ذات اور اس کے اسما وصفات وافعال سے ہوتا ہے۔ دوسری قسم کا شرک عبادت میں ہوتا ہے۔ ایسا مشرک اگر یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ ذات وصفات الٰہی میں کوئی شریک نہیں ہے تو بھی اس میں اور شرک فی العبادۃ میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ شرکِ تعطیل: شرک کی پہلی قسم بنیادی طور پر دو طرح کی ہے۔ ایک شرکِ تعطیل ہے۔ یہ شرک کی تمام اقسام میں بدترین ہے۔ فرعون کا شرک یہی تھا کہ وہ صفاتِ الٰہی کا منکر تھا۔ شرک اور تعطیل ایک دوسرے کو لازم ملزوم ہیں، یعنی ہر مشرک معطل اور ہر معطل مشرک ہوتا ہے۔ اگرچہ شرک اصل تعطیل کو مستلزم نہیں ہے، کیونکہ بعض مشرکین خالق اور صفاتِ خالق کا اقرار بھی کرتے ہیں، مگر اصل شرک یہی تعطیل ہے، اس لیے یہاں اس کو بیان کیا جا رہا ہے۔ تعطیل کی تین صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ مصنوع کی صانع سے تعطیل اور نفی کرنا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ صانع کو اس کمال سے معطل کر دینا جو اس کے لیے ثابت ہے۔ تیسری تعطیلِ معاملہ ہے، یعنی جو توحید بندے پر واجب ہے، اس کی حقیقت کو بے کار کر دینا۔ مشرکین کی ایک قسم وحدۃ الوجود والے ہیں، پھر انھیں میں سے ایک قسم وہ ملحدین ہیں جو عالم کی قدامت وابدیت کے قائل ہیں اور سارے
Flag Counter