Maktaba Wahhabi

435 - 548
﴿وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ﴾ [آل عمران: ۱۲۲] [اور اللہ ہی پر مومنوں کو بھروسا کرنا چاہیے] 4۔چوتھی قسم استعانت بلا عبادت ہے۔ یہ حالت اس شخص کی ہوتی ہے جو یہ جانتا ہے کہ نفع وضرر کا مالک صرف اللہ اکیلا ہے، لیکن یہ نہیں جانتا کہ اللہ کی مرضی ونا مرضی اورمحبوب ومکروہ کیا ہے؟ لیکن اپنی خواہشوں اور چاہتوں کے بارے میں اللہ پر توکل کرتا ہے اور اس توکل سے اس کا کام چل جاتا ہے، مگر وہاں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ چاہے اسے مال و دولت حاصل ہو یا ریاست و حکومت ملے یا لوگوں کے نزدیک جاہ ومنزلت والا ہو، دنیا وآخرت میں اس کا حصہ اتنا ہی ہے۔ قبولیتِ عبادت کے دو اصول: بندے کی بندگی اور عبادتِ الٰہی کا تحقق وثبوت دو مضبوط اصول کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے: 1۔ایک اخلاصِ عبادت 2۔دوسرے متابعتِ رسول۔ ان دونوں اصلوں کے اعتبار سے لوگوں کی چار قسمیں ہیں: 1۔ایک اہلِ اخلاص ومتابعت ہیں، جو ایک اللہ کے لیے خالص عبادت کرتے ہیں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وطریقے کے بالکل موافق کرتے ہیں۔ ان کے سارے اعمال واقوال اللہ ہی کے لیے ہوتے ہیں، لینا دینا ہو یا دوستی ودشمنی کا معاملہ ہو، وہ کسی بشر سے شکر وجزا کے طالب نہیں رہتے۔ وہ سب لوگوں کو قبروں میں مدفون مُردوں کی طرح جانتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیںکہ ان کو کسی کے نفع وضرر، موت وحیات ونشور اور امور واشیا پر کوئی قدرت نہیں ہے۔ اخلاص وہ چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی عامل کا ا چھا عمل جو اخلاص سے خالی ہو، قبول نہیں کرتا ہے۔ احسن اور بہترین عمل وہی ہے جو زیادہ سے زیادہ خالص اور صحیح تر ہو۔ خالص وہ کام ہوتا ہے جو صرف ایک اللہ کے لیے ہو اور صواب وہ کام ہے جو سنتِ نبویہ کے موافق ہو۔ فرمایا: ﴿فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا﴾ [الکھف: ۱۱۰] [جو اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہو، اسے نیک عمل کرنا چاہیے] اس آیت میں عمل صالح سے مراد یہی خالص وصواب عمل ہے۔ مزید فرمایا:
Flag Counter