Maktaba Wahhabi

454 - 548
1۔علامہ زمخشری کی تفسیر: علامہ زمخشری نے کہا ہے: ’’آیت کا تکرار تاکید کے لیے ہے یا طعمہ کے قصے کی وجہ سے ہے جو شرک کی حالت میں وفات پا گیا تھا۔ (طعمہ بن ابیرق نامی شخص مرتد ہو کر شرک کی حالت میں مر گیا تو اس کے انجام کی بابت یہ آیت نازل ہوئی) ایک دیہاتی شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہا کہ میں ایک بوڑھا آدمی ہوں اور گناہوں میں ڈوبا ہوا ہوں، لیکن جب سے میں نے اللہ کو پہچانا اور اس پر ایمان لایا ہوں، کسی چیز کو اللہ کے ساتھ برابر نہیں ٹھہرایا ہے نہ اللہ کے سوا کسی کو اپنا ولی ومالک سمجھا، نہ اللہ پر جرات کرکے اوراپنے کو بڑا سمجھ کرگناہ کیے اور نہ پلک جھپکنے کے برابر بھی کبھی یہ خیال کیا کہ میں بھاگ کر اللہ کو عاجز کردوں گا۔ اب میں نادم اور تائب ہو کر اللہ کی مغفرت کا طالب ہوں۔ بتائیے! اللہ کے یہاں میرا کیا حال ہوگا؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔[1] اس حدیث سے اس شخص کے قول کی تائید ہوتی ہے جس نے ﴿من یشائ﴾ کا مصداق گناہوں سے توبہ کرنے والے کو قرار دیا ہے۔ انتہی۔[2] 2۔امام رازی کی تفسیر: امام رازی رحمہ اللہ نے ’’مفاتیح الغیب‘‘ میں پہلی آیت کی تفسیر میں کہا ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے جب یہود کو دھمکایا اور بتایا کہ یہ دھمکی ضرور واقع ہوگی تو یہ بھی ذکر فرمایا کہ یہ دھمکی خاص کفر سے متعلق ہے۔ کفر کے علاوہ باقی سارے گناہوں کا معاملہ کفر جیسا نہیں ہے، بلکہ کبھی اللہ تعالیٰ ان کو معاف بھی کر دیتا ہے، اسی لیے مشرک کی بخشش نہ ہونے کو نمایاں طور پر بیان کیا ہے۔ ’’اس آیت میں کئی ایک مسئلے ہیں۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہ آیت اس بات پر دلیل ہے کہ یہودی کو عرفِ شرع میں مشرک کہا جا سکتا ہے، جس کی دو وجہ ہے۔ ایک یہ کہ آیتِ مذکورہ شرک کے ما سواکے مغفور ہونے پر دلالت کر رہی ہے۔ اگر یہودیت شرک کے مغایر ہوتی تو آیتِ مذکورہ کے سبب وہ لائقِ بخشش ہوتی، حالانکہ وہ بالاجماع مغفور نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہودیت کو اسم شرک شامل ہے۔ دوسرے یہ کہ اس آیت کا ما قبل
Flag Counter