Maktaba Wahhabi

456 - 548
اب وہ اسلام میں داخل ہوئے۔[1] قاضی نے اس روایت پر طعن کیا ہے اور رازی نے اس کا جواب دیا ہے۔[2] دوسری آیت کی تفسیر: پھر آیت دوم کی تفسیر کے تحت لکھا ہے کہ اس آیت کو مکرر ذکر کر نے میں دو فائدے ہیں: 1۔ایک یہ کہ قرآن پاک میں عموماتِ وعد و وعید متعارض اور مختلف انداز میں مذکور ہیں اور اللہ تعالیٰ نے کسی آیتِ وعید کو بلفظ واحد دوبار نہیں ذکر کیا ، سواے اس آیتِ شرک کے جو ایک ہی الفاظ اور ایک ہی سورت میں عفو و مغفرت پر دلالت کرتی ہے۔ اہلِ علم کا اس پر اتفاق ہے کہ تکرار کا فائدہ تاکید کے سوا کچھ نہیں ہے، اس بنیاد پر یہ آیت اس بات پر دلیل ہے کہ اللہ پاک نے وعدہ ورحمت کے پہلو کو تاکید مزید کے ساتھ خاص کیا ہے جو وعید پر وعد کی ترجیح کو مقتضی ہے۔ 2۔دوسرا فائدہ یہ ہے کہ سابقہ آیتیں زرہ چرانے والے کے حق میں نازل ہوئی ہیں اورآیت: ﴿وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ﴾ [النسائ: ۱۱۵] [جو رسول کی مخالفت کرے] اس چور کے مرتد ہونے کے بارے میں اتری ہے۔ اس آیت کاماقبل سے اتصال صحیح طریقے سے اسی صورت میں ہوگا جب یہ مراد ہو کہ اگر وہ چور مرتد نہ ہو جاتا تو ہماری رحمت سے محروم نہ رہتا، لیکن جب اس نے مرتد ہوکر شرک باللہ کیا تو قطعی طور پر وہ رحمت الٰہی سے محروم ہوگیا۔ پھر اس کی تاکید یوں فرمائی کہ شرک کا معاملہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا ہے، مشرک شخص سخت گمراہ ہو جاتا ہے، لیکن جس نے شرک نہیں کیا ہے وہ بہت بڑا گمراہ نہیں ہے۔ اب ضرور ہے کہ وہ اللہ کی رحمت سے محروم نہ رہے۔ یہ ساری مناسبات اور موافق حال باتیں اس بات پر قطعی دلیل ہیں کہ یہ آیت اس امر پر دلالت کر رہی ہے کہ شرک کے سوا جو گناہ ہوں، وہ سب قطعی طور پر لائق معافی ہیں، خواہ ان کے مرتکب نے ان سے توبہ کی ہو یا نہ کی ہو۔ انتہی۔[3] 3۔امام نسفی کی تفسیر: نسفی نے ’’مدارک التنزیل‘‘ میں پہلی آیت ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ ۔۔۔ الخ﴾
Flag Counter