Maktaba Wahhabi

484 - 548
ہامہ اور عدویٰ کا معنی: حدیث میں ہامہ اور عدوی وغیرہ کے جو الفاظ آئے ہیں، ان کی تشریح یہ ہے کہ ہامہ الو پرندے کو کہتے ہیں۔ اہلِ عرب جاہلیت میں یہ اعتقاد تھا کہ جب مردے کی ہڈیاں گل سڑ کر خاک ہو جاتی ہیں تو وہ الو کے روپ میں قبر سے نکل کر قبر کا حال سناتی ہیں، اسی لیے کسی گھر پر الو کا بیٹھنا منحوس خیال کرتے اور اس سے خانہ ویرانی کی فال لیتے ہیں۔ یہ بالکل خرافات اور واہیات باتیں ہیں۔ جو کوئی یہ کہے کہ آدمی مر سڑ کر کسی جانور کی صورت میں آتا ہے تو وہ جھوٹا ہے۔ ’’تقویۃ الإیمان‘‘ میں مذکور ہے کہ عرب کے جاہلوں میں مشہور تھا کہ جو کوئی مارا جائے اور اس کا بدلہ نہ لیا جائے تو اس کے سر کی کھوپڑی سے ایک الو نکل کر فریاد کرتا پھرتا ہے، اس کو ہامہ کہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بات غلط ہے۔[1] بیماری کا متعدی ہونا: اسی طرح اہلِ عرب کا یہ اعتقاد تھا کہ بعض امراض جیسے چیچک، خارش اور جذام وغیرہ متعدی ہو کر دوسرے کو لگ جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ غلط اور وہم ہے۔ عدوی (ایک کی بیماری دوسرے کو لگنا) کی کوئی اصل نہیں ہے۔ یہ سب اوہام اور رسومِ کفر ہیں۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میںآیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جذامی شخص کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ رکابی میں رکھ دیا اور فرمایا: (( کُلْ ثِقَۃً بِاللّٰہِ وَتَوَکُّلاً عَلَی اللّٰہِ ))(رواہ ابن ماجہ) [2] یعنی ہم کو اللہ پر بھروسا ہے، وہ جس کو چاہے بیمار کردے، جس کو چاہے تندرست رکھے۔ ہم کسی بیمار کے ساتھ کھانے سے پرہیز نہیں کرتے اور بیماری کا سرایت کرنا نہیں مانتے۔ آب وہوا کی ناموافقت کے سبب سے نقل مکانی کرنا یا دفع توہم کے لیے بیمار سے اختلاط نہ رکھنا یا شریر گھوڑے کو بدل ڈالنا یا بدزبان عورت کو چھوڑ دینا اور بات ہے، اسی لیے نیک فال لینا جائز ہے اور بد فال لینا شرک ہے، کیونکہ نیک فال میں اللہ سے خیر کی امید ہوتی ہے اور بد فال میں اللہ کے ساتھ بد گمانی کا خطرہ ہے۔
Flag Counter