Maktaba Wahhabi

487 - 548
(( وَیْحَکَ إِنَّہٗ لَا یُسْتَشْفَعُ بِاللّٰہِ عَلَی أَحَدٍ ))(رواہ أبو داود) [1] [تجھ پر افسوس! تو اتنا نہیں جانتا کہ اللہ کو کسی کے پاس سفارشی بناکر نہیں لے جاتے ہیں] سبحان اللہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کی بات سن کر اس قدر ڈر گئے اور ہمارے ہاں جاہلوں کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے رب کو ایک پیسے میں خرید لیا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ میں اللہ سے دو برس بڑا ہوں۔ کوئی کہتا ہے کہ اگر میرا رب میرے شیخ کے سوا کسی اور کی صورت میں تجلی کرے گا تو میں اس کی طرف نظر بھی نہیں کروں گا۔ کوئی کہتا ہے کہ میں محبتِ رسول میں اللہ کا رقیب ہوں۔ کسی نے کہا ہے کہ اللہ کے ساتھ دیوانہ بنو اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوشیار رہو۔ کسی نے حقیقتِ محمدیہ کو حقیقتِ الوہیت پر فضیلت دے دی ہے، جس طرح بعض لوگ ولایت کو نبوت سے افضل بتاتے ہیں۔ یہ سارے کلمات و الفاظ واضح کفر وضلالت، خالص شرک والحاد اور حقیقی زندیقیت ہیں۔ عیاذاً با اللّٰہ ۔ ’’یا شیخ عبد القادر شیئا للّٰہ‘‘ کے الفاظ: اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ لوگوں میں ختم کے نام سے جو بات مشہور ہے جس میں یہ لوگ کہتے ہیں: ’’یا شیخ عبد القادر شیئاً ﷲ‘‘ یہ ہرگزدرست نہیں ہے، کیونکہ اس لفظ میں اللہ کو شفیع بنا کر شیخ کے سامنے لایا جاتا ہے۔ مانا کہ شیخ عبد القادر کبیر الاولیاء ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ ہر کبیر سے اکبر ہے۔ بعض فقہا کے نزدیک یوں کہنا: ’’یا اللّٰہ أعطني شیئا کذا وکذا للشیخ عبد القادر‘‘ جائز ہے، لیکن یہ توسل بھی بے ضرورت اور ناروا ہے، کیونکہ اگر اس قسم کا توسل ہر سوال میں جائز ہوتا تو صحابہ وتابعین جناب سید المرسلین شفیع المذنبین رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کرتے، مگر سلف سے یہ طریقہ ماثور ومنقول نہیں ہے۔ اگر منقول ہو بھی تو اہلِ علم وشرع کے نزدیک اس کا اعتبار نہیں ہے، کیونکہ قضایا عین اور واقعات اتفاقیہ ایسے عام احکام میں لائقِ استناد والتفات نہیں ہوا کرتے، خصوصاً اس صورت میں کہ ان آثار واخبار کی اسانید ضعیف یا منکر یا موضوع ہوں اور ان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ سے دعا وسوال، استعانت و استمداد، استغاثہ والتجا اور تضرع کے بارے میں احادیث صحیحہ مرفوعہ اور آیات قرآنیہ موجود ہوں۔ بہر حال جس حرف، اسم اور فعل سے اللہ جل جلالہ کے ساتھ شرک یابے ادبی کی بد بو ظاہر ہو،
Flag Counter