Maktaba Wahhabi

491 - 548
توسل: تیسرا لفظ توسل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مقصد کے لیے کسی مخلوق کو اللہ کی طرف وسیلہ بنانا۔ شیخ عز الدین بن عبد السلام نے کہا ہے کہ یہ توسل الی اللہ جائز نہیں ہے مگر صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ، بشرطیکہ وہ حدیث درجہ صحت کو پہنچ جائے۔ اس سے مراد وہ حدیث ہے جسے امام ترمذی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔ اس میں یہ لفظ وارد ہوا ہے: ’’اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّہُ إِلَیْکَ بِنَبِیَّکَ مُحَمَّدٍ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘‘[1] [اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتاہوںاور تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں تیرے نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ] لیکن اس حدیث کے معنی میں دو قول ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے مراد وہ توسل ہے جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے استسقا میں کیا تھا، چنانچہ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ’’إِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضی اللّٰه عنہ کَانَ إِذَا قُحِطُوْا اِسْتَسْقٰی بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلَبِ فَقَالَ: اَللّٰھُمَّ إِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّنَاصلی اللّٰه علیہ وسلم فَتَسْقِیْنَا، وَ إِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا فَاسْقِنَا‘‘[2] [جب لوگوں پر قحط واقع ہوتا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ استسقا کرتے اور یوں دعا کرتے: اے اللہ! ہم اپنے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے تیرا تقرب چاہتے تھے تو تو ہم کو بارش سے سیراب کرتا تھا، اب ہم اپنے نبی کے چچا کے ساتھ تیرا تقرب چاہتے ہیں، پس تو ہم کو سیراب کردے] اس توسل کامطلب اسی قدر تھا کہ ہم بھی دعا کرتے ہیں اور آپ بھی دعا کریں، گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم داعی اور سفارشی کے قائم مقام تھے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے توسل آپ کی حیات میں اور وفات کے بعد کیا جائے۔ زمانہ حیات میں آپ سے توسل کر نا تو خود ہی ظاہر ہے۔ رہا آپ کی ممات کے بعد تو صحابہ کرام کے اجماع سکوتی سے کسی زندہ شخص سے توسل کرنا ثابت ہے، اس لیے کسی نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر انکار
Flag Counter