Maktaba Wahhabi

495 - 548
’’عاصیہ‘‘ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بدل کر ’’جمیلہ‘‘ نام رکھ دیا۔ [1] اسی طرح ایک صحابی کا نام ’’حزن‘‘ تھا، آپ نے ان کا نام ’’سہل‘‘ رکھ دیا تھا۔ [2] اس طرح کے کئی واقعات حدیثوں میں مذکور ہیں۔ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کو بہت محبوب اورپیارے نام عبد اللہ اور عبد الرحمن ہیں۔[3] عام مسلمانوں نے نام رکھنے میں یہاں تک نوبت پہنچائی ہے کہ صریح شرک کرنے لگے ہیں، جیسے عبد فلاں، غلام فلاں نام رکھنے لگے اور پیر بخش، سالار بخش، مدار بخش کہنے لگے۔ ان ناموں کے شرک ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ غلام کے معنی اگر چہ فرزند کے آتے ہیں، مگر عرف عام میں یہ عبد (بندہ) کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے، اس بنا پر ’’غلام فلاں‘‘ نام کو شرک کہا جاتا ہے، ورنہ حقیقی معنی کے اعتبار سے اس میں کوئی شرک نہیں ہے، لیکن جس نام میں شرک کا شبہہ ہو، اگرچہ اصطلاحِ عوام میں رائج ہو، ایسا نام رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ محلِ تہمت سے بچنا بھی ایک شرعی حکم ہے، جیسے سلیمان جاہ وغیرہ، اس قسم کے القاب بدعت کی قسم سے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم انبیا کے نام پر نام رکھا کرو۔ [4] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ تم منافق کو سید نہ کہو، اللہ اس پر خفا ہوتا ہے۔ [5]ل اسی طرح کسی چیز کا ایسا نام رکھنا جو اس کی تعریف وتزکیہ کو متضمن ہو، منع ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگور کا نام ’’کرم‘‘ رکھنے سے منع فرمایاہے،[6] اسی طرح کنیت کے لیے بھی ایسے الفاظ استعمال نہ کریں جو تزکیہ وتعظیم پر دلالت کرتے ہیں، جیسے ابو الحکم وغیرہ۔ مشیت میں شرک کرنا: یہ کہنا کہ ’’ما شاء اللّٰہ وشاء محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘ ممنوع ہے، بلکہ صرف ’’ما شاء اللّٰہ ‘‘ کہنا چاہیے۔ [7] کیونکہ پہلے قول میں شرک کا شائبہ پایا جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سارے
Flag Counter