Maktaba Wahhabi

499 - 548
حسنہ ہو یا سیئہ، بہر حال اس سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔ اس پر یہ حدیث (( مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ )) [1] [جو کوئی کسی قوم سے مشابہت رکھے گا وہ انھیں میں شمار ہوگا ] دلیل ہے، نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ مَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ﴾ [المائدۃ: ۵۱] [اور جو کوئی ان سے دوستی رکھے وہ انھیں میں ایک ہے] یعنی کسی قوم کی دوستی اور مشابہت آدمی کو اسی قوم میں داخل کر دیتی ہے، اس لیے مشرکین وکفار اپنی مذہبی رسوم کے تحت جو میلے ٹھیلے کرتے ہیں، ان میں جانا اسی لیے حرام ہے کہ اس میں کفار کے ساتھ تشبہ اور ان کی تعداد میں زیادتی بھی ہوتی ہے، البتہ وہ میلہ جو فقط خرید و فروخت کے لیے ہوتا ہے اور وہاں کوئی بت یا قبر یا تھان یا مکان یا چلہ یا اللہ کے سوا کسی معبود کا نشان نہیں ہے تو وہاں مالِ تجارت کی فروخت کی غرض سے جانا جائز ہے۔ مجمعوں اور میلوں کے درمیان اگر یہ فرق ملحوظ نہ رکھا جائے گا تو شرک کا اندیشہ لگا رہے گا۔ غیر ملت کے ساتھ تشبہ کی بہت سی صورتیں ہیں، ان سب کا حصر اس جگہ مشکل ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک کتاب ’’اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ اسی کے بیان میں لکھی ہے۔ کسی غیر مسلمان قوم کے ہم وضع ہونا، جیسے اس کے جیسا لباس، مکان یا سواری یا طرزِ طعام اختیار کرنا؛ اس کے ساتھ تشبہ کی صورتیں ہیں۔ غرض کہ نذرِ معصیت میں بھی شرک کی مشابہت ہے۔ سجدۂ غیر اللہ: اللہ کے سوا کسی مخلوق کو سجدہ کرنا شرک ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿لاَ تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلاَ لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَھُنَّ﴾ [فصلت: ۳۷] [تم سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو، اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان کو بنایا ہے] معلوم ہوا کہ غیر خالق کو سجدہ کرنا حرام ہے۔ اس کو شرک فی العبادۃ کہا گیا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین و انصار کی ایک جماعت میں تشریف فرما تھے، ایک اونٹ نے آکر آپ کو سجدہ کیا۔ صحابہ کرام نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چوپائے اور درخت سجدہ کرتے ہیں تو ہمیں آپ کو سجدہ کرنے کا حق ان سے کہیں زیادہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے رب کی عبادت کرو اور اپنے بھائی (رسول صلی اللہ علیہ وسلم)کی عزت وتکریم کرو۔ اگر میں کسی کو حکم کرتا کہ وہ کسی کو
Flag Counter