Maktaba Wahhabi

517 - 548
کی تفصیل یہ ہے کہ ’’لات‘‘ طائف میں ایک سفید منقوش پتھر تھا، اس کے لیے ایک گھر بنایا گیا تھا، جس پر پردے ڈالے گئے تھے اور اس کے مجاور پجاری تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو وہاں بھیجا جنھوں نے اس گھر کو ڈھا کر بت کو آگ میں جلا دیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ ’’لات‘‘ ایک آدمی تھا جو حاجیوں کے لیے ستو گھولتا رہا، جب وہ مرگیا تو لوگ اس کی قبر پر اعتکاف کرنے لگے۔[1] (رواہ البخاري) دوسری روایت میں یوں ہے کہ وہ آدمی ایک پتھر کے پاس بیٹھ کر گھی ستو بیچتا تھا۔ قبیلہ ثقیف کے لوگ اس پتھر کو پوجنے لگے، اس طریق سے اس کی تعظیم کرتے تھے یا خود اس کی قبر کے پجاری تھے۔ ان اقوال میں کوئی تعارض نہیں ہے، کیونکہ پتھرپوجنا یا کسی بشر کی قبر کو پوجنا ایک ہی بات ہے، اس امت میں جو مشاہد اور قبروں پرقبے بنائے گئے ہیں، یہ عملِ سخیف اسی فعلِ ثقیف سے مشتق ہے، (یعنی قبیلہ ثقیف کی بت پرستی کی ایک شکل ہے) معلوم ہوا کہ اہلِ جاہلیت صلحا اور احجار واشجار کے پجاری تھے۔ عُزّیٰ: ’’عزی‘‘ ایک درخت کا نام تھا۔ قریش اس کی تعظیم کرتے تھے اور انھوں نے اس درخت کے گرد ایک گھر بھی بنایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بھیج کر اس درخت کو جڑ سے کٹوا کر پھینکوا دیا۔ وہ درخت ببول کے تین درختوں کا مجموعہ تھا۔ ان کی جڑ سے ایک برہنہ عورت بال کھولے ہوئے نکلی تو سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنی تلوار سے قتل کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عزی یہی تھا۔ [2]اس درخت پر کفار دھاگے لٹکاتے تھے، اس امت میں اس سے عظیم تر ضلالت یہ ہے کہ مقابرِ اموات، اَشجار و اَحجار اور صلحا کے مشاہد و قبور پر چادر وغلاف چڑھاتے اور ان کے تعزیے بناتے ہیں۔ منات: ’’منات‘‘ مکے اور مدینے کے درمیان ایک بت تھا۔ لوگ اس کے پاس خوں ریزی کرتے تھے اور اس کو تبرک سمجھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال علی مرتضی رضی اللہ عنہ کو بھیج کر اسے ڈھا دیا۔ بعض کا قول یہ ہے کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے تڑوا ڈالا۔
Flag Counter