Maktaba Wahhabi

519 - 548
رہا بعض متاخرین کا یہ دعوی کہ آثارِ صلحا سے برکت لینا جائز ہے، تو یہ صحیح نہیں ہے۔ اگر بالفرض صحیح ہو تو اسی قدر جائز ہو گا جو سنت صحیحہ سے ثابت ہے۔ ایسا تبرک ہرگز جائز نہیں ہے جو آج کل قبر پرست اور پیر پرست کیا کرتے ہیں۔ ان دونوں میں زمین وآسمان کا فرق اور مشرق ومغرب کا تفاوت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہرگز اس کام پر ثواب نہیں دیتا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا یا نہیں بتایا، گو ہمارے تمھارے نزدیک وہ کام کیسا ہی مستحسن ہو۔کسی امر کا مستحسن اور قبیح ہونا شرعی حکم کی بنا پر ہوتا ہے، ان میں عقل و رائے اور اجتہاد کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اہلِ سنت کا یہی مذہب ہے، البتہ معتزلہ حسن وقبح عقلی کے قائل ہیں۔ وہ باتفاق اہلِ علم مشرک اور تقدیر کے مکذب ہیں، ان کی بات کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ذبح لغیر اللہ: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ * لَا شَرِیْکَ لَہٗ﴾ [الأنعام: ۱۶۲] [اے پیغمبر کہہ دو کہ بیشک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لیے خاص ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے] یہ آیت اس بات پر دلیل ہے کہ نماز یعنی عبادت اورذبح خاص اللہ کے لیے ہونا چاہیے۔ اصنام و مزارات کی پوجا کرنا اور ان کے لیے جانور ذبح کرنا مشرکین کا کام ہے۔ اللہ کے لیے ذبح کرنے کی تخصیص ﴿فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ﴾ [الکوثر: ۲] [نماز اور قربانی اللہ کے لیے خاص کرو] میں لام اختصاص سے ظاہر ہے۔ یہ آیت اس بات پر واضح دلیل ہے کہ بدنی اور مالی عبادت خاص اللہ کے لیے ہونی چاہیے۔ اگر کوئی شخص نما ز اللہ کے لیے پڑھتا ہے، لیکن جانور غیر اللہ کے لیے ذبح کرتا ہے تو یہ بھی شرک فی العبادۃ ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ ذَبَحَ لِغَیْرِ اللّٰہِ )) [1] (رواہ مسلم) [اللہ اس شخص پر لعنت کرے جو غیر اللہ کے لیے ذبح کرے] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر جانور ذبح کرنے والا ملعون ہے،
Flag Counter