Maktaba Wahhabi

544 - 548
دعائیں قبول نہیں ہوتیں، مگر وہ اللہ سے ضد نہیں باندھتے، بلکہ اس سے ڈر جاتے ہیں اور اس کی پناہ مانگنے لگتے ہیں۔ دیکھو نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کے غرق کے وقت اس کی نجات کے لیے دعا کی تھی، جب اس پر ان کو ٹکا سا جواب ملا تو عذر کرنے لگے۔ جب انبیا کا یہ حال ہے تو کسی اور کی کیا حقیقت ہے جو اللہ تعالیٰ سے ضد کرے کہ اس کے مشرک و بدعتی شاگرد، مرید اور معتقد کو بخش دے؟! جادو کی حرمت: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰ ہُ مَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ﴾ [البقرۃ: ۱۰۲] [یہودیوں کو معلوم ہے کہ جس نے جادو خریدا، وہ آخرت میں بے نصیب ہے] امام قتادۃ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اہلِ کتاب جانتے ہیں کہ آخرت میں جادوگر کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ جادو گر بے دین ہوتا ہے۔ آیتِ مذکورہ سحر کی حرمت پر دلیل ہے۔ تمام رسولوں کے دین میں ہمیشہ سے جادو کی حرمت چلی آئی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ لَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی﴾ [طٰہٰ: ۶۹] [جادو گر جہاں آئے جائے بامراد نہیں ہوتا] امام احمد رحمہ اللہ کے اصحاب نے کہا ہے کہ جادو گر جادو سیکھنے سکھانے کی وجہ سے کافر ہے۔ ابو محمد مقدسی رحمہ اللہ کے نزدیک عزائم، رقی اور عقد (جھاڑ پھونک، منتر اور گنڈے) کو سحر کہتے ہیں، جو دل اور بدن میں اثر کرتے ہیں۔ ان سے آدمی بیمار پڑ جاتا ہے یا مر جاتا ہے یا میاں بیوی میں جدائی ہو جاتی ہے۔ فرمایا: ﴿یُفَرِّقُونَ بِہٖ بَیْنَ الْمَرْئِ وَ زَوْجِہٖ﴾ [البقرۃ: ۱۰۲] [اس جادو کے ذریعے میاں بیوی میں جدائی کر دیتے ہیں] نیز فرمایا: ﴿وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ﴾ [الفلق: ۴] [اور گنڈوں پر پھونکنے والیوں کی برائی سے] پہلی آیت میں سارے جھاڑ پھونک اور منتر داخل ہیں۔ دوسری آیت میں ہر قسم کے گنڈے
Flag Counter