Maktaba Wahhabi

555 - 548
[جو لوگ اللہ پر اور پچھلے دن پر ایمان رکھتے ہیں، تم ان کو نہیں پاؤ گے کہ ان لوگوں سے دوستی رکھیں جو اللہ اور رسول کے دشمن ہیں] دائمی محبت: اسی لیے حدیث میں ’’حب للّٰہ‘‘ اور ’’بغض في اللّٰہ‘‘ کو افضل اعمال اور تکمیلِ ایمان کی علامت قرار دیا ہے۔ [1] دوسری حدیث میں اس کو افضل ایمان فرمایا ہے۔ [2] قیامت کے روز سارے دوست اور یار آشنا ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے، مگر اہلِ تقوی کی دوستی برقرار رہے گی، اس لیے کہ دنیا داروں کی محبت شرکیہ تھی لیکن اہلِ ایمان کی محبت الٰہیہ تھی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اَلْاَخِلَّآئُ یَوْمَئِذٍم بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِِلَّا الْمُتَّقِیْنَ﴾ [الزخرف: ۶۷] [اس دن جگری دوست ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے، سوائے ان لوگوں کے جو حقیقی متقی ہیں] دنیا میں جتنی محبتیں ہیں، جیسے باپ ماں کی محبت یا بیوی وشوہر کی محبت یا اولاد کی محبت، وہ سب دنیوی اغراض پر مبنی ہیں، اگرچہ ظاہر میں کوئی اس کا انکار کرے، کیوں کہ ہر محبت کا مرجع جمال ہوتا ہے یا کمال یا معاش کی حسنِ تدبیر یا جمعِ مال کی حرص یا حصولِ آرام و دفعِ تکلیف۔ اسی طرح اجانب کی محبت کا حال ہے کہ وہ بھی دنیوی غرض کی طرف راجع ہوتی ہے۔ محبت کی یہ ساری اقسام بے کار ہیں، البتہ جو محبت عذابِ نار سے بچائے اور بہشت میں لے جائے، وہ معبود برحق کی محبت ہے، یا وہ محبت ہے جو معبود کے لیے کسی شخص سے ہو، جیسے انبیا، اولیا، اہلِ بیت ، صحابہ، علما، حفاظ و قرا کی محبت کہ یہ اللہ کی محبت کا ایک شعبہ ہے، اسی لیے یہ محبت آخرت میں کام آئے گی۔ اللہ کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے عرشِ الٰہی کے سائے میں ہوں گے۔[3] مسلمان موحد کو چاہیے کہ اپنی ساری محبت اللہ کے واسطے صرف کرے۔ جب اس کو یہ محبت حاصل ہو جائے گی تو وہ غیر اللہ کی محبت سے بے زار ہو جائے گا اور شرک سے کوسوں دور جا پڑے گا،
Flag Counter