Maktaba Wahhabi

557 - 548
طلبِ جاہ: شرکیہ ریا کاری کی ایک نوع یہ ہے کہ والیوں اور حاکموں کے یہاں یا علما و مشائخِ وقت کے نزدیک جاہ ومرتبہ طلب کرنا اور اس کے لیے جزئیات کی تالیف میں مشغول رہنا اور عوام الناس میں اپنی مجددیت یا اجتہاد کا دعوی کرنا، باوجودیکہ وہ اس رتبے تک پہنچ نہیں پایا ہے اور اس کے اسباب بھی مفقود ہیں، مگر شہرت ومقبولیت کے لیے اپنے سے افضل شخص پر رد و تنقید کرنا، تاکہ لوگ اس کو بڑا فقیہ سمجھیں، یہ سب شرک ہی کی اقسام ہیں۔ اس مسکین شہرت طلب کو یہ معلوم نہیں ہے کہ مقلدین باتفاق اہلِ علم، علما نہیں ہوتے ہیں، پھر مجدد و مجتہد ہونے کا کیا ذکر ہے ؟ جیسا کہ ابن عبد البر نے ’’کتاب العلم‘‘ میں اس کی صراحت کی ہے۔[1] بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ دین میں ریا کے کئی مفاسد ہیں، اس میں ریاست ومرتبت کا شوق، لوگوں کا اعتقاد و تعظیم، پوشیدہ نفسانی خواہشات و چالبازیوں اور نفس و شیطان کی فریب کاریوں کے امکان و گمان کی بڑی گنجایش ہے۔ صدیقین کے سوا کم ہی لوگ اس سے محفوظ رہتے ہیں، اس لیے پوشیدہ اور سنجیدہ رہنا اولی طریقہ ہے، اگر کسی کو جاہ و شہرت اس کے ارادے کے بغیر حاصل ہو تو یہ ایک نعمتِ الٰہی ہے۔ بہر حال ریا کا باب نہایت وسیع ہے اور اس کے انواع بہت زیادہ ہیں۔ یہ شرک غایت درجہ پوشیدہ اور باریک ہے۔ اس کی تفصیل ’’إحیاء العلوم‘‘ میں، پھر کتاب ’’زواجر‘‘ میں بسط سے لکھی ہے۔ [2] ہم نے بھی ’’قوارع الانسان‘‘ میں زواجر کا خلاصہ لکھا ہے۔ [3] اس لیے اس جگہ اس کے حوالے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ ریاکاری سے اعمال برباد ہوجاتے ہیں: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے: (( قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: أَنَا أَغْنَی الشُّرَکَائِ عَنِ الشِّرْکِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلاً أَشْرَکَ فِیْہِ مَعِيَ غَیْرِيْ تَرَکْتُہٗ وَشِرْکَہٗ))[4]
Flag Counter