Maktaba Wahhabi

559 - 548
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ریا کو ’’شرک اصغر‘‘ کہتے تھے۔ [1] یہ ریا جہال و فساق کی نسبت صلحا و علما میں زیادہ ہوتی ہے۔ فضیل بن عیاض رحمہ اللہ نے آیتِ کریمہ ﴿لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ [الملک: ۲] [تاکہ تمھارا امتحان لے کہ تم میں کون بہتر عمل والا ہے] کی تفسیر میں کہا ہے کہ ﴿اَحْسَنُ﴾ سے مراد ’’اَخلص و اَصوب ہے۔‘‘ کسی نے پوچھا: ’’اَخلص و اَصوب‘‘ کیا ہے؟ کہا کہ جو عمل خالص ہوتا ہے، لیکن صواب نہیں ہوتا تو وہ قبول نہیں ہوتا اور جب صواب ہوتا ہے اور خالص نہیں ہوتا، تب بھی مقبول نہیں ہوتا، جب تک کہ خالص نہ ہو۔ خالص وہ عمل ہے جو صرف اللہ کے لیے ہو اور صواب وہ عمل ہے جو سنتِ نبویہ کے موافق ہو۔[2] دنیوی لالچ کے ساتھ عمل کرنا بھی شرک ہے: شرک کی ایک قسم یہ ہے کہ انسان اپنے عمل سے دنیا طلب کرے، یعنی نیک عمل سے مقصد و غرض دنیا طلبی ہو۔ اس میں اور ریا میں فرق یہ ہے کہ ریا میں لوگوں کے نزدیک اپنی عزت وشہرت اور تعریف و توصیف مراد ہوتی ہے۔ اس میں بھی کبھی دنیا طلبی ہوتی ہے، لیکن دنیا طلبی کی نیت سے جو عمل ہوتا ہے اس میں مال و دولت کا حصول غالب ہوتا ہے، جیسے تحصیلِ مال کے لیے جہاد کرنا یا اغراضِ دنیویہ کے لیے علم حاصل کرنا، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَھَا نُوَفِّ اِلَیْھِمْ اَعْمَالَھُمْ فِیْھَا وَ ھُمْ فِیْھَا لَا یُبْخَسُوْنَ﴾ [ھود: ۱۵] یعنی جس کسی کا ارادہ کسی کام سے یہ ہوتا ہے کہ اس کو مال اور دنیا ہاتھ آئے تو اس عمل کا ثواب یہیں دنیا میں اس کو دے دیا جاتا ہے، جیسے صحت وتندرستی اور مال و اولاد کی طرف سے سرور وسکون۔ اس دنیوی ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ ہاں آخرت میں وہ تہی دست اور مفلس ہو کر آتا ہے، مثلاً قرآن اس لیے پڑھا ہے کہ قاری کہلائے، عالم اس لیے ہوا ہے کہ مولوی مولانا مشہور ہو اور مال اس لیے خرچ کیا ہے کہ سخی کہا جائے۔ پھر وہ دنیا میں انھیں ناموں سے مشہور ہوا تو قیامت میں
Flag Counter