Maktaba Wahhabi

563 - 548
علاوہ ہمیں کوئی ہلاک نہیں کر تا] اسی طرح شیطان نے کسی سے ملائکہ، جنات اور شیاطین کے وجود کا انکار کرایا اور کسی کو فلسفی بنا دیا۔ یہ فلسفیت کسی امت کے ساتھ خاص نہیں ہے، یونان ہو یا ایران یا اور کوئی جائے آباد یا ویران، ہر جگہ اور ہر امت میں اس مذاق کے لوگ ہوتے ہیں۔ اسلام میں بھی یہ فلسفۂ شرک و کفر خیر القرون کے بعد گھس آیا اور اکثر امت اس میں پھنس گئی۔ إلا ما شاء اللّٰہ تعالی۔ دو گونہ فتنہ: فتنہ دو طرح کا ہوتا ہے: ایک فتنہ شبہات۔ دوسرا فتنہ شہوات۔ فتنہ شبہات بصیرت کی کمزوری اور علم کی کمی سے ہوتا ہے، خصوصاً جب کہ اس کے ساتھ فاسد ارادہ اور خواہش پرستی بھی شامل ہو جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اِِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَھْوَی الْاَنْفُسُ﴾ [النجم: ۲۳] [یہ لوگ بس گمان اور خواہش نفس کی پیروی کرتے ہیں] فتنہ شبہات اور اس کا تدارک: آخر کار اس فتنے کا انجام کفر و نفاق ہوتا ہے۔ منافقین اور اہلِ بدع اپنے نفاق وابتداع کے حسبِ مراتب اسی فتنے میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس فتنے سے تب ہی نجات ملتی ہے کہ ہر چھوٹے بڑے کام میں صرف رسول کا اتباع کرے اور ان کو فیصل مانے، ظاہر وباطن میں کتاب وسنت کے خالص مدلولات کا مطیع رہے، کفارِ یونان وغیرہ کے علوم سے اشتغال نہ کرے اور منقول کو کسی معقول کی وجہ سے نہ چھوڑے۔ شارع علیہ السلام نے تو آسمانی کتب منسوخہ کا مطالعہ بھی پسند نہیں کیا ہے، بلکہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں اجزاے تورات دیکھ کر غصہ کیا اور فرمایا: (( لَوْ کَانَ مُوْسٰی حَیًّا مَا وَسِعَہُ إِلَّا اتِّبَاعِيْ )) [1] [اگر موسی علیہ السلام زندہ ہوتے تو میرے اتباع کے سوا انھیں چارہ نہ ہوتا] شریعت محمدیہ کا جب یہ مقام ہے تو ہند اور یونان کے کفار وفجار کے علوم کی تعلیم وتعلم کا یہاں کیا کام ہے اور اصولِ دین میں علمِ کلام کے خلط ملط قوانین اور فروعِ مذاہب میں قوانینِ معقولات
Flag Counter