Maktaba Wahhabi

564 - 548
سے کیا غرض ہے ؟ ہدایت کا دار ومدار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور احوال پر ہے۔ جس قدر سنتِ مطہرہ سے دوری ہوگی، اسی قدر ضلالت بھی زیادہ ہوگی۔ فتنہ شہوات کا علاج: رہا فتنہ شہوات تو وہ صبر سے دفع ہو سکتا ہے، جس طرح فتنۂ شبہات یقین سے دور ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ﴿وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ﴾ [العصر: ۳] [اور ایک دوسرے کو حق بات کی نصیحت کرتے ہیں] فتنۂ شبہات کے دفع کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اس قول ﴿وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ [العصر: ۳] [ایک دوسرے کو صبر کرنے کی نصیحت کرتے ہیں] میں فتنۂ شہوات کے دفع کی طرف اشارہ ہے۔ جب کوئی بندہ ان دونوں فتنوں سے صحیح سلامت رہتا ہے تو اس کو فلاح وسعادت اور ہدایت و رحمت، جو اصل مقصود ہیں، حاصل ہوتی ہیں۔ ہدایت کو قبول کرنے والا محل بندۂ پرہیز گار کا دل ہوتا ہے اور جو غیر قابل محل ہوتا ہے تو اس میں جب ہدایت آتی ہے تو اس پر کچھ بھی اثر نہیں کرتی، جس طرح مریض کے لیے اچھی غذا سود مند نہیں ہوتی، بلکہ اس کے ضعف و فساد کو زیادہ کرتی ہے۔ ایک نکتہ: اس جگہ ایک نکتہ یہ ہے کہ انسان کبھی یہ بات دیکھتا ہے کہ اہلِ ایمان پر دنیا میں لگاتار مصیبتیں آتی ہیں اور فجار کو دنیا میں مال وریاست ملتی ہے تو وہ یہ اعتقاد کر لیتا ہے کہ دنیا کی نعمت انھیں کفار وفجار کے لیے ہے، مومنوں کا حصہ دنیا میں بہت کم ہے، اور وہ اس بات کا معتقد ہو جاتا ہے کہ عزت ونصرت دنیا میں کفار ومنافقین کے لیے مقرر ہے، پھر جب قرآن پاک میں یہ آیات دیکھتاہے: ﴿وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ﴾ [المنافقون: ۸] [اور اللہ ہی کے لیے عزت ہے، اور اس کے رسول اور مومنوں کے لیے ہے] 2۔ ﴿وَاِِنَّ جُنْدَنَا لَھُمُ الْغٰلِبُوْنَ﴾ [الصافات: ۱۷۳] [یقینا ہمارا لشکر ہی غالب ہوگا ] نیز فرمایا: ﴿کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ﴾ [المجادلۃ: ۲۱] [اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ میں غالب رہوں گا اور میرے رسول غالب رہیں گے]
Flag Counter