Maktaba Wahhabi

58 - 548
زبردست ہے؟ تم اس کے سوا عبادت نہیں کرتے مگر چند ناموں کی، جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کے بارے میں کوئی دلیل نہیں اتاری۔ حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں، اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا اور کسی کی عبادت مت کرو، یہی سیدھا دین ہے] معلوم ہوا کہ کسی کی راہ و رسم کو ماننا اور اس کے حکم کو اپنی سند اور بنیاد سمجھنا، یہ بھی انھیں باتوں میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے خاص اپنی تعظیم کے لیے ٹھہرائی ہیں، نیز کسی اور سے یہ معاملہ کرنے پر شرک ثابت ہو جاتا ہے۔ اللہ کا حکم بندوں تک پہنچنے کا ذریعہ رسول کا خبر دینا ہے۔ اب جو کوئی کسی امام یا مجتہد یا غوث یا قطب یا مولوی مشائخ یا باپ دادوں یا کسی بادشاہ یا وزیر یا پادری یا پنڈت کی بات کو اور ان کی راہ و رسم کو رسول کی بات اور فرمان سے مقدم سمجھے اور آیت و حدیث کے مقابلے میں اپنے پیر و استاد کے قول کی سند پکڑے یا خود پیغمبروں ہی کو یوں سمجھے کہ شریعت انھیں کا حکم ہے، ان کا جو جی چاہتا تھا، وہ اپنی طرف سے کہہ دیتے تھے، وہی بات ان کی امت پر لازم ہو جاتی تھی تو ایسی باتوں سے شرک لازم ہو جاتا ہے، بلکہ اصل حاکم اللہ تعالیٰ ہے، پیغمبر تو صرف خبر دینے والا ہے، لہٰذا جس کی بات رسول کے موافق ہو تو مانے اور اگر موافق نہ ہو تو نہ مانے۔ قیامِ تعظیم اللہ کے لیے خاص ہے: سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ لوگ بت بن کر اس کے روبرو کھڑے رہیں تو وہ اپنا ٹھکانا آگ سمجھ لے۔‘‘ (رواہ الترمذي) [1] اس حدیث میں جس شخص کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ یہ شخص گویا خدائی کا دعوی رکھتا ہے۔ تعظیم کا جو کام اللہ کے لیے خاص ہے، یعنی اس کے بندے نماز میں اس کے رو برو ہاتھ باندھ کر با ادب کھڑے ہوتے ہیں۔ مذکور شخص یہ چاہتا ہے کہ لوگ یہ عمل اس کے لیے بجا لائیں، جیسے امیروں کے دربار میں چوبدار اور چپڑاسی ادب کے ساتھ خاموش کھڑے رہتے ہیں۔ امت محمدیہ میں بت پرستی کا آغاز: ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں یہ خبر دی گئی ہے کہ قیامت سے پہلے اس امت کے کچھ لوگ
Flag Counter