Maktaba Wahhabi

68 - 548
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ ہم کو اللہ پر بھروسا ہے، ہم کسی بیمار کے ساتھ کھانے سے پرہیز نہیں کرتے اور بیماری کے متعدی ہونے کو نہیں مانتے۔ وہ اللہ ہی ہے جسے چاہے بیمار کرے اور جسے چاہے تندرست۔ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو قحط کی سختی بیان کی اور کہا کہ ہم اللہ کے ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش چاہتے ہیں اور اللہ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر خوف اور دہشت طاری ہو گئی اور زبان سے اللہ کی بڑائی اور کبربائی بیان کرنے لگ گئے، جس سے اہلِ مجلس کے چہروں کے رنگ بدل گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کو کسی کے پاس سفارشی نہیں ٹھہراتے۔ اللہ کی شان اس سے بلند اور بڑی ہے۔ (أخرجہ أبوداؤد عن جبیر بن مطعم) [1] بے دین لوگوں کی کفریہ اور شرکیہ باتیں: گذشتہ حدیث سے معلوم ہوا کہ ’’یا شیخ عبد القادر شیئاً للّٰہ‘‘ [اے شیخ عبدالقادر! اللہ کے لیے ہماری مراد پوری کرو] یا اس قسم کا کوئی جملہ کہنا شرک ہے۔ وہ مالک الملک ایک آن میں کروڑوں کام کر دیتا ہے۔ وہ کس کے روبرو سفارش کر سکتا ہے؟ جس شہنشاہ کے دبدبے سے عرش عظیم چر چرائے، اس کے ساتھ جاہل لوگ بھائی بندی کا سا رشتہ یا دوستی آشنائی کا سا علاقہ سمجھ کر بڑھ بڑھ کر کیا کیا کفریہ باتیں کرتے ہیں۔ کوئی بد دین کہتا ہے کہ اگر میرا رب میرے پیر کے سوا کسی اور صورت میں ظاہر ہو تو میں ہر گز اسے نہ دیکھوں۔ کوئی بدبخت حقیقتِ محمدی کو حقیقتِ الوہیت سے بہتر بتاتا ہے، عیاذاً باللّٰہ، حالانکہ حقیقتِ محمدی اسی قدر ہے کہ ’’عبدہ ورسولہ‘‘ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ الرب رب و إن تنزل والعبد عبد و إن ترقی [رب رب ہی ہے، اگرچہ وہ نیچے اترے اور غلام غلام ہی ہے اگرچہ وہ اوپر چڑھے] شہنشاہِ عالم سے ہمارا رویہ کیا ہو؟ یہ محض بے جا بات ہے کہ آدمی بہ ظاہر بے ادبی کا لفظ بولے اور اس سے کچھ اور معنی مراد لے،
Flag Counter