Maktaba Wahhabi

101 - 579
کفر کی کوئی امارت و علامت نہ پائی جائے گی اور ان سے کوئی موجباتِ کفر چیز صادر نہ ہوگی، تب تک ہم ان پر کفر کا حکم نہیں لگائیں گے، جیسے اللہ تعالیٰ کے صانع، قدیر، علیم ومختار ہونے کی نفی یا غیر اللہ کی عبادت یا انکارِ معاد یا انکارِ نبی یا تمام ضروریاتِ دین اور امہاتِ شرع مبین کا انکار۔ جو اس کے علاوہ ہے اس کا قائل مبتدع ہے نہ کہ کافر۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر: نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا واجب ہے۔ یہ دین کا ایک مضبوط ستون ہے جو افرادِ امت میں سے ہر شخص پر واجب ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ فتنہ برپا نہ ہو، کیونکہ جب برائی سے منع کرنے پر برائی کا بڑھ جانا لازم آتا ہو تو پھر اس سے انکار جائز نہیں ہے، جیسے ملوک، روسا اور امرا کے خلاف خروج کر کے برائی کا انکار کرنا، کیونکہ یہ ہر شر اور برائی کی جڑ ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان امرا کے خلاف قتال کرنے کی رخصت طلب کی جو تاخیر سے نماز ادا کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، جب تک وہ نماز ادا کریں، تب تک ان سے مت لڑو۔[1] نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم اپنے امیر میں کوئی مکروہ امر دیکھو تو صبر کرو اور اس کی اطاعت سے دست کش نہ ہو جاؤ۔[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت سے قبل مکے میں کئی طرح کی منکرات کا مشاہدہ کرتے تھے، مگر انھیں بدل نہ پاتے تھے، حتی کہ جب مکہ فتح ہو کر دار الاسلام بھی بن گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ چاہا کہ بیت اللہ کو اصل بنیادوں پر تعمیر کر دیں، لیکن محض فتنے کے ڈر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام نہ کیا۔[3] غرض کہ جب یہ گمان ہو کہ امرو نہی مقبول ہوگا، تب ہی اس کو بجا لائے، ورنہ سکوت کرنا اولیٰ اور خاموشی اختیار کرنا ہی مستحسن ہے۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ انکارِ منکر کے چار درجے ہیں۔ ایک یہ کہ منکر دور ہو کر اس کی جگہ معروف آ جائے۔ دوسرے یہ کہ بندہ انکار کر سکے، گو اس انکار سے منکر امر دور نہ ہو۔ تیسرے
Flag Counter