Maktaba Wahhabi

119 - 579
[میری امت کی مثال بارش کی مثال ہے، جس کے متعلق یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا اول حصہ بہتر ہے یا آخری] اس فضلیت کا انداز کچھ یوں ہو گا کہ جمہور قرنِ اوّل جمہور قرنِ ثانی سے افضل ہیں، کیونکہ قرنِ اوّل میں بعض فاسق و منافق بھی تھے، جیسے حجاج، یزید اور مختار۔ اور اس کے مابعد قرن میں بڑے بڑے علما و صلحا ہوئے، جیسے حفاظ حدیث، شیخ الاسلام ابن تیمیہ، شیخ عبدالقادر جیلانی اور قاضی شوکانی رحمہم اللہ ۔ ہر بدعت گمراہی ہے: حدیثِ صحیح: (( کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ )) [1] [ہر بدعت گمراہی ہے] کے مطابق ہر بدعت مطلق طور پر ضلالت اور گمراہی ہے۔ بدعت کو بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ وغیرہ میں تقسیم کرنا بلا دلیل ہے، کتاب و سنت سے اس کی بو تک محسوس و مشموم نہیں ہوتی۔ شیخ عبدالحق دہلوی حنفی رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ اعتصام بالسنہ اگرچہ قلیل ہو، احداثِ بدعت سے بہر صورت بہتر ہے، اگرچہ وہ حسنہ ہو، کیونکہ اتباعِ سنت سے نور پیدا ہوتا ہے اور بدعت سے ظلمت و اندھیرا آتا ہے، مثلاً سنت کے مطابق خلا و استنجا کے آداب بجا لانا، رباط و مدرسہ بنانے سے بہتر ہے۔ سنت پر چلنے والا آدابِ سنت کی رعایت کی وجہ سے مقامِ قرب تک ترقی کر جاتا ہے اور مذکورہ آداب کا ترک کرنا ترکِ افضل تک پہنچا دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ قساوتِ قلب کے مرتبے تک پہنچ جاتا ہے، جسے کتاب اللہ میں ’’رین‘‘ (زنگ) ’’طبع‘‘ (مہر) اور ’’ختم‘‘ (مہر لگ جانا) کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ انتھیٰ۔ اسی سے ملتے جلتے الفاظ ومفہوم کے ساتھ ملا علی قاری نے ’’مرقاۃ المفاتیح‘‘ میں کلام کیا ہے۔[2] و للّٰہ الحمد۔ تفہیمات میں فرمایا ہے کہ بدعت تین قسم کی ہے۔ ایک وہ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا عزم کے برانگیخت فرمایا، اس کو تو وہ خوب مضبوطی سے تھام لے، جیسے تراویح کہ یہ بدعت حسنہ ہے۔ دوسری ان مباح عادات کا اختیار کرنا جو سلف میں رائج نہیں تھیں، یہ آسان کام ہے۔ تیسری وہ جس میں کسی سنت کا ترک یا مشروع کی تحریف لازم آتی ہے، یہ ضلالت اور گمراہی ہے۔ انتھیٰ۔ مذکورہ بالا اقسامِ بدعت میں سے پہلی قسم درحقیقت سنت حکمیہ ہے، اس کو بدعت کہنا لغوی
Flag Counter