Maktaba Wahhabi

224 - 579
[بلا شبہہ وہ امت میں سب سے زیادہ نیک دل، سب سے زیادہ علوم میں پختہ اور ان سب سے کم تکلف کرنے والے تھے] اسی سے ملتی جلتی بات سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے۔[1] اس قول میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو لوگ صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کے بعد آئے، وہ علم میں تو ان سے کم ہیں، مگر بہت زیادہ تکلف کرنے والے ہیں۔ نیز سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: ’’إِنَّکُمْ فِيْ زَمَانٍ کَثِیْرٌ عُلَمَاؤُہٗ، قَلِیْلٌ خُطَبَاؤُہٗ، وَسَیَأْتِيْ بَعْدَکُمْ زَمَانٌ قَلِیْلٌ عُلَمَاؤُہٗ، کَثِیْرٌ خُطَبَاؤُہٗ‘‘[2] [بلا شبہہ تم ایک ایسے دور میں ہو جس میں علما زیادہ اور خطبا کم ہیں، جب کہ تمھارے بعد ایک ایسا دور آنے والا ہے جس میں علما کم اور خطبا زیادہ ہوں گے] لہٰذا جو شخص زیادہ علم اور کم گفتگو والا ہے، وہ قابل ستایش ہے اور جو شخص اس کے برعکس ہے، وہ قابل مذمت ہے۔ علماے یمن کی مدح سرائی: علامہ ابن رجب رحمہ اللہ نے کہا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ یمن کے ایمان اور فقہ کی شہادت دی ہے، چنانچہ یمنی لوگ تمام لوگوں سے کم کلام کرنے والے اور وسیع علوم رکھنے والے ہیں۔ ان کا علم، علم نافع ہے جو ان کے دلوں میں ہے۔ یہ بقدر حاجت وضرورت اپنی زبان میں علم کو کرتے ہیں، اسی کو فقہ اور نفع مند علم کہتے ہیں۔ غرض کہ تمام علوم میں سے افضل علم وہ ہے، جو تفسیر قرآن اور معانی احادیث سید الأنام کے بارے میں ہو اور حلال و حرام میں وہ علم کامل ہے جو صحابہ، تابعین اور تبع تابعین سے ماثور و منقول ہو کر اسلام کے مشہورین ائمہ کرام رحمہ اللہ تک پہنچے۔ وہ ائمہ جن کی دین میں اقتدا کی جاتی ہے اور جن کے نام ہم
Flag Counter