Maktaba Wahhabi

225 - 579
اوپر ذکر کر آئے ہیں، لہٰذا اس باب میں ان سے مروی چیز کو سمجھ بوجھ کے ساتھ ضبط کرنا افضل علم ہے۔ رہا وہ توسع جو ان کے بعد ایجاد ہوا ہے، تو اس میں زیادہ خیر نہیں ہے، مگر یہ کہ ان کے کلام کی شرح ہو۔ جو ان کے کلام کے مخالف ہے وہ اکثر باطل ہے، اس میں کچھ فائدہ نہیں، بلکہ انھیں کا کلام کافی و وافی ہے۔ جو لوگ ان کے بعد ہوئے، ان کے کلام میں جو حق ملتا ہے، وہی حق ان ائمہ کے کلام میں مختصر الفاظ میں موجود ہے اور جس چیز کا بطلان ان کے بعد والے لوگوں کے کلام میں پایا جاتا ہے، اس کا بطلان ائمہ سابقین کے کلام میں موجود ہے، مگر اس شخص کے لیے جو سوجھ بوجھ رکھتا ہے۔ پھر ان کے کلام میں وہ انوکھے معانی اور دقیق ماخذ موجود ہیں، جن کی طرف بعد والے لوگ راہنمائی پاتے ہیں نہ کوئی اس تک پہنچتا ہے۔ پس جو شخص ان کے کلام سے علم حاصل نہیں کرتا، اس سے یہ خیر کثیر بالکل فوت ہو جاتی ہے اور متاخرین کی متابعت کی وجہ سے وہ باطل کی گہرائیوں میں جا گرتا ہے۔ سلف کے کلام کو سمجھنے کے لیے معرفت تامہ درکار ہے: جو شخص سلف کے کلام کو جمع کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، وہ صحیح کو سقیم سے پہچاننے کا محتاج ہوتا ہے اور یہ بات جرح و تعدیل اور علل کی معرفت سے حاصل ہوتی ہے۔ جسے اس امر کی شناخت نہیں ہے، وہ جو کچھ نقل کرتا ہے اس پر اسے وثوق نہیں ہو سکتا، بلکہ خود اس پر حق و باطل غیر واضح رہتا ہے اور اسے اپنے علم پر یقین نہیں ہوتا جس طرح کہ تھوڑے علم والے لوگ روایتِ حدیث پر یا مرویاتِ سلف پر، صحیح کو سقیم سے نہ جاننے کی وجہ سے وثوق ویقین نہیں کرتے ہیں، بلکہ وہ اپنے جہل کے سبب یہ تجویز کرتے ہیں کہ یہ سب باطل ہے، کیونکہ انھیں سرے سے وہ معرفت ہی حاصل نہیں ہے جس کے سبب وہ صحیح اور سقیم کو شناخت کر سکیں۔ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور تابعین سے مروی علم کی حیثیت: امام اوزاعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’علم وہ ہے جو اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں، جو کچھ اس کے سوا ہے وہ علم نہیں ہے۔‘‘ امام احمد رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے۔ رہے تابعین تو ان کے حق میں انھوں نے کہا ہے:
Flag Counter