Maktaba Wahhabi

248 - 579
وہاں پر مذہب شافعی رحمہ اللہ عام ہو گیا۔ ارجون نے ۲۶۳ھ میں نماز میں اونچی آواز سے بسم اللہ پڑھنے سے روکا۔ اہلِ مصر مالکی اور شافعی مذہب پر گامزن تھے تا وقتیکہ ۳۵۸ھ میں فائد جوہر نے شیعہ مذہب کو رواج دیا۔ اس شیعہ مذہب کی بنیاد عبد اللہ بن سبا نے رکھی۔ ۵۶۴ ؁ھ میں ملک ناصر صلاح الدین رحمہ اللہ کے زمانے میں مصر میں مدارس مالکیہ اور شافعیہ بنے اور شیعہ مذہب کا کلی طور پر خاتمہ ہو گیا، حتی کہ وہ سر زمین مصر میں کہیں بھی باقی نہ رہا۔ پھر محمود زنگی نے تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے حنفی مذہب کو رائج کیا اور مصر وشام میں کثرت سے حنفی ہو گئے، تب سے اس مذہب نے خوب رواج پایا۔ اہلِ امصار کے عقائد کا بیان: اب ذرا اہلِ امصار کے عقائد کا حال بھی سن لو! سلطان صلاح الدین رحمہ اللہ نے تمام لوگوں کو شیخ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کے عقیدے پر لگایا اور دیارِ مصر کے اوقاف میں اس عقیدے کو لازم قرار دیا، چنانچہ دیارِ مصر، شام، ارضِ حجاز و یمن اور بلادِ مغرب میں یہ عقائد رائج ہو گئے۔ جو شخص اس کے خلاف بات کرتا اس کی گردن مار دی جاتی اور اب تک وہاں یہی حال ہے۔ دولتِ ایوبیہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کا بہت چرچا نہیں تھا، پھر دولت ایوبیہ کے آخر میں ان دونوں مذاہب کا ذکر نکلا۔ ملک ظاہر بیبرس کے دور میں چاروں مذاہب کے قاضی مقرر ہوئے۔ ۶۶۵ھ سے یہ طریقہ چل نکلا۔ یہاں تک کہ جمیع امصارِ اسلام میں مذاہب اربعہ اور عقیدہ اشعری کے سوا کوئی مذہب و عقیدہ باقی نہ رہا۔ تمام ممالکِ اسلامیہ میںان لوگوں کے لیے مدارس، خانقاہیں، حجرے، تکیے اور قیام گاہیں بن گئیں۔ جو شخص اس مذہب اور عقیدے پر نہ ہوتا اس پر انکار کیا جاتا، وہ دشمن ٹھہرتا، اسے عہدہ قضا ملتا نہ اس کی گواہی قبول ہوتی، نہ اسے خطابت، امامت اور تدریس ملتی، جب تک کہ وہ ان مذاہب میں سے کسی ایک مذہب کا مقلد نہ ہوتا۔ امام مقریزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وأفتی فقہاء ہذہ الأمصار في طول ھذہ المدۃ بوجوب اتباع ھذہ المذاہب و تحریم ما عداھا والعمل علی ھذا إلی الیوم‘‘ انتھی۔ [اس طویل عرصے میں ان امصار کے فقہا نے ان مذاہب کے اتباع کے وجوب اور ان
Flag Counter