Maktaba Wahhabi

258 - 579
واجب ہے کہ وہ کتاب منزل اور سنت مطہرہ کے مطابق ہو، ورنہ اللہ تعالیٰ تنزیہ عقول بشریہ سے، جن کے افکار مختلف قیود کے ساتھ مقید ہیں، منزہ ہے۔ اسی طرح عقول کی تنزیہ قرآن و حدیث کی موافقت کے ساتھ مقید ہے کہ وہ احکام و آثارِ شرع کے مطابق ہو۔ جب یہ معرفت ہواے نفس سے خالی ہوتی ہے تو اس وقت اللہ تعالیٰ بصائر سے پردے ہٹا کر راہِ حق دکھاتا ہے اور بصائر کی تنزیہ افکارِ عادیہ کے ساتھ تنزیہات عرفیہ سے کرتا ہے۔ صفاتِ الٰہیہ پر مشتمل آیات و احادیث پر کسی تاویل، تشبیہ اور تمثیل کے بغیر ایمان لانا: سارے مسلمانوں کا اس بات پر قطعی اجماع ہے کہ صفاتِ الٰہیہ کے بارے میں وارد احادیث کو روایت کرنا، ان کو نقل کرنا اور ان کا پہچاننا جائز ہے، اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ پھر اہلِ حق نے اس پر بھی اجماع کیا ہے کہ یہ احادیث مخلوق کی مشابہت کے احتمال سے بعید ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَھُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ﴾[الشوریٰ: ۱۱] [اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے] نیز فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ * اَللّٰہُ الصَّمَدُ * لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ * وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ﴾[سورۃ الإخلاص:۱۔۴] [کہہ دے وہ اللہ ایک ہے۔ اللہ ہی بے نیاز ہے۔ نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا۔ اور نہ کبھی کوئی ایک اس کے برابر کا ہے] اس سورت کا نام سورۃ الاخلاص ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بہت زیادہ شان بیان کی ہے اور اپنی امت کو اس کی تلاوت کرنے کی رغبت دلائی ہے، یہاں تک کہ اسے ایک تہائی قرآن فرمایا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سورت اللہ تعالیٰ کی تنزیہ، عدمِ تشبیہ اور عدمِ تمثیل پر گواہ ہے۔ اسی لیے اس کا نام سورۃ الاخلاص ہے کہ یہ اخلاصِ توحیدِ الٰہی پر مشتمل ہے اور اس میں مخلوق کے ساتھ تشبیہ کا کوئی شائبہ نہیں ہے۔ ﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾[الشوریٰ: ۱۱] میں ’’کاف‘‘ زائدہ ہے۔ کلام عرب میں حرف ’’کاف‘‘ اور کلمہ ’’مثل‘‘ تشبیہ کے لیے آتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو جمع فرما کر
Flag Counter