Maktaba Wahhabi

313 - 579
وبلاغت کے سرچشمے تھے، مگر وہ سب اس کے معارضے و مقابلے سے عاجز نکلے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس قرآن مجید میں غیب کی خبریں اور پہلے لوگوں کی تاریخ ہے، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے اور دیگر کتابوں کے مطالعے سے بے خبر تھے۔ اور معجزے کا صاحبِ معجزہ کی سچائی پر دلیل ہونا واضح ہے جو زیادہ بیان کا محتاج نہیں ہے۔ امورِ آخرت کا بیان: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن امورِ آخرت کی خبر دی ہے، وہ سب حق ہیں اور اس کی دس اصلیں ہیں: اصل اول: حشر و نشر، یعنی بندوں کو، دفن کرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے اٹھانا عقلاً بھی ممکن ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے، جیسے پہلی دفع پیدا کرنا اس کی قدرت میں تھا۔ کیونکہ اعادہ دوسری ابتدا ہے جو پہلی ابتدا کی طرح ہی ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قُلْ یُحْیِیْھَا الَّذِیْٓ اَنْشَاَھَا اَوَّلَ مَرَّۃٍ ﴾[یٰسٓ: ۷۹] [کہہ دے انھیں وہ زندہ کرے گا جس نے انھیں پہلی مرتبہ پیدا کیا] اصل دوم: منکر و نکیر کا سوال بھی ممکن ہے، کیوں کہ یہ اجزا میں سے کسی جز میں اسی حیات کے اعادے کو چاہنا ہے جو ممکن ہے اور ممکن پر موقوف ممکن ہوتا ہے۔ ہمارا اس کو نہ سننا اور میت کے اجزا کا سکون اسے دفع اور رد نہیں کر سکتا ہے۔ سونے والا بظاہر ساکن ہوتا ہے، جب کہ باطن میں آلام ولذات کا ادراک کرتا ہے، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جبریل علیہ السلام کو دیکھتے اور ان کی بات سنتے تھے، اور آپ کے اردگرد والے بے خبر ہوتے تھے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآئَ﴾[البقرۃ: ۲۵۵] [اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرتے مگر جتنا وہ چاہے] اصل سوم: عذابِ قبر حق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اسلافِ امت کی طرف سے یہ مشہور و مشتہر ہے کہ انھوں نے عذابِ قبر سے پناہ پکڑی ہے، لہٰذا عذابِ قبر ممکن ہے۔ میت کے اجزا کا منتشر ہو جانا
Flag Counter