Maktaba Wahhabi

370 - 579
ملائکہ، انبیا، مومنین اور ارحم الراحمین کی شفاعت حق ہے۔ اہلِ کبائر سے مومنوں کی ایک جماعت جہنم میں جائے گی، پھر شفاعت سے باہر آئے گی، یہ سب حق ہے اور جو کچھ کتابوں میں آیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں اس کا علم ہو یا جہل ہو، وہ حق ہے۔ ہر وہ شخص جس کے پاس میری یہ شہادت پہنچی، اس کے پاس یہ میرے نفس پر امانت ہے، چنانچہ وہ سوال کے وقت جہاں کہیں بھی وہ ہو اس امانت کو ادا کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمھیں اس ایمان سے نفع دے اور دارِ حیوان کی طرف منتقل ہوتے وقت ہمیں اس پر ثابت قدم رکھے اور ہمیں کرامت ورضوان کے گھر میں داخل کرے، ہمارے اور ان گھر والوں کے درمیان حائل ہو جائے جن کی قمیصیں گندھک کی ہوں گی اور ہمیں اس جماعت میں شامل کرے جس نے کتبِ الٰہیہ کو ایمان کے ساتھ لیا ہے، وہ حوض سے سیراب ہو کر لوٹا ہے، اس کی ترازو بھاری ہو گئی ہے اور اس کے پاؤں صراط پر جمے رہے وہی منعم محسان ہے، انتھیٰ۔ اس کے بعد شعرانی رحمہ اللہ نے دلائل سمعیہ شرعیہ سے مناسب تفصیل و تقریر کے ساتھ ہر جملہ عقیدہ کو ثابت کیا ہے اور اس کی تائید میں علما اور اولیا کے اقوال نقل کیے ہیں۔ ان عقائد میں وہ مسائل اتحاد وغیرہ، جن پر انتقاد کیا گیا ہے، مذکور نہیں ہوئے، اس لیے کہ شعرانی رحمہ اللہ نے کتاب فتوحات میں بتایا ہے کہ یہ شیخ کے حاسدوں نے ان کے ذمے لگائے ہیں اور تکفیر کی بنیاد انھیں مسائل پر ہے۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت شیخ، امام اور ولی اللہ تھے، لہٰذا کسی مسلمان کو ان کی تکفیر کرنے کا حق نہیں پہنچتا ہے اور جس کسی عالم باللہ نے ان کی تکفیر کی ہے تو درحقیقت وہ ان کی تکفیر نہیں ہے بلکہ اس کا مرجع وہ کلمات ہیں جو بظاہر شرع سے مخالفت رکھتے ہیں۔ پس شیخ کا ان کلمات کے ساتھ بولنا اور تکلم کرنا بعید ہے اگرچہ حالت سکر ہی میں کیوں نہ ہو۔ وہ عبارات قابلِ تاویل ہیں اور ہر شخص کو تاویل کی قدرت حاصل نہیں ہوتی ہے۔ ہمارے شیخ امام محمد بن علی شوکانی رحمہ اللہ پہلے شیخ کے منکر تھے، پھر چالیس برس کے بعد رجوع کیا اور کہا کہ ان کے بعض الفاظ محتمل اور قابلِ تاویل ہیں اور انھوں نے تکفیر کو روا نہ رکھا، وللّٰہ الحمد۔ فائدہ: شیخ نے فتوحات مکیہ میں لکھا ہے:
Flag Counter