Maktaba Wahhabi

40 - 579
کی ہتکِ حرمت پر غضب آلود ہوتا ہے اور جب ان کا ذکر کیا جائے تو ہشاس بشاس ہوتا ہے۔ ﴿ وَاِِذَا ذُکِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ اِِذَا ھُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ﴾[الزمر: ۴۵] [اور جب ان کا ذکر ہوتا ہے جو اس کے سوا ہیں تو اچانک وہ بہت خوش ہو جاتے ہیں] خصوصاً جب یہ ذکر کیا جائے کہ وہ (اس کے بنائے ہوئے شریک) پریشان کی غم خواری اور حاجت مند کی حاجت روائی کرتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے درمیان ایک دروازے کی حیثیت رکھتے ہیں تو آپ دیکھتے نہیں کہ مشرک ان کے نام لینے سے کتنا شاداں و فرحاں ہوتا ہے؟ اس کا دل ان کی طرف فریاد کناں ہو جاتا ہے اور تعظیم وخضوع کے جذبات اور محبت وموالات کے احساسات میں ایک ہیجان برپا ہو جاتا ہے۔ جب اکیلے اللہ کا ذکر کیاجاتاہے اور توحید کے ذریعے شرک کی نفی کی جاتی ہے تو ان مشرکین پر ایک وحشت طاری ہو جاتی ہے، انھیں سخت تنگی اور شدید حرج لاحق ہو جاتا ہے۔ جبکہ اپنے معبودوں کی تنقیص سن کر تم پر ہر طرح کی تہمت لگاتے، بلکہ تمھارے دشمن بن جاتے ہیں۔ واللہ ہم نے ان کی اس صورت حال کا مشاہدہ کیا ہے کہ انھوں نے ہم پر الزام تراشی کی۔ اللہ انھیں دنیا و آخرت میں ذلیل و خوار کرے۔ موحدین پر اولیا کی گستاخی کا الزام: آج کے مشرکین کی اپنے معبودوں سے محبت کا یہ عالم ہے کہ جو بات ان کے بھائیوں اور زمانہ جاہلیت کے مشرکوں نے کہی تھی کہ یہ شخص ہمارے خداؤں کی عیب گیری کرتا ہے، وہی بات یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ شخص ہمارے مشائخ کی گستاخی کرتا ہے، حالانکہ وہ اللہ کے حضور ہماری حاجات و ضروریات پیش کرنے کے ذرائع اور ابواب ہیں۔ یہی بات نصاریٰ نے کی تھی۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کہا کہ مسیح علیہ السلام اللہ کے بندے ہیں تو انھوں نے جواب میں کہا: ’’تَنَقَّصْتَ الْمَسِیْحَ وَ عِبْتَہٗ‘‘[1] [آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو مسیح علیہ السلام کی گستاخی اور عیب گیری کی ہے] اسی طرح آج کے دور میں جب کوئی شخص ان مشرک نما لوگوں سے کہتا ہے کہ قبروں کو بت کدہ
Flag Counter