Maktaba Wahhabi

468 - 579
ساتھ اللہ تعالیٰ کو متصف جانے اور جس چیز سے اپنی ذات کو مقدس اور منزہ فرمایا ہے اس سے وہ اللہ تعالیٰ کو منزہ اور مقدس رکھے۔ اثبات ونفی میں قرآن و حدیث کی پیروی کرنا چاہیے، چنانچہ اس میں جو ثابت ہے، اسے ثابت اور جو منفی ہے اس کی نفی کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ایک ہے، ازل سے ابد تک موجود ہے، وہ جمیع صفاتِ کمال کے ساتھ متصف ہے۔ وہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے، جنتا ہے نہ جنا گیا ہے، اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔ وہ حکیم ہے جو کچھ کرتا ہے حکمت سے کرتا ہے، وہ جو چاہے سو کرے۔ اس کے سارے کمالات بالفعل ہیں۔ وہ قدیم، ازلی اور ابدی ہے۔ اس کے لیے قائم بالذات صفاتِ قدیمہ ثابت ہیں، جیسے حیات، علم، قدرت، سمع، بصر، ارادہ، تکوین اور کلام۔ سمع و بصر دو مستقل صفات ہیں: علم کے علاوہ سمع وبصر اللہ تعالیٰ کی دو الگ مستقل صفتیں ہیں، چنانچہ قرآن مجید کا تتبع اسی پر گواہی دیتا ہے، کیونکہ علم کو معلومات کے ذکر میں وارد کیا گیا ہے، سمع کو مسموعات کے بیان میں ذکر کیا گیا ہے اور بصر کو مبصرات کے بیان میں عیاں فرمایا گیا ہے۔ سمیع اور بصیر کو علیم بمسموعات اور علیم بمبصرات کی طرف راجع کرنے میں قرآن وحدیث کی تحریف لازم آتی ہے اور جس کسی سے سمع و بصر کی نفی ہو گی، اسے سمیع وبصیر نہ کہیں گے، چنانچہ اس قول کی قباحت پوشیدہ اور مخفی نہیں ہے۔ صفتِ کلام کا بیان: یہ جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام حرف وصوت نہیں رکھتا ہے تو ان کا یہ قول کتاب وسنت اور عقل کے بھی خلاف ہے کہ اللہ کا کلام حرف وصوت نہ رکھتا ہو۔ کلام اللہ کا بے حرف و آواز ہونا سمجھ میں نہیں آتا جس طرح انسان کے سارے اعضا جدا کر دیے جائیں تو اسے انسان نہیں سمجھا جاتا۔ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جو مخلوق نہیں ہے۔ اس کا آغاز اسی کی طرف سے ہوا اور اسی کی طرف یہ لوٹ جائے گا۔ اس کے الفاظ ومعانی سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، جبریل علیہ السلام صرف ناقل ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مبلغ ہیں۔ جس کسی کی زبان پر یہ کلامِ مقدس جاری ہوا وہ اللہ تعالیٰ ہی کا کلام تھا جس کے ساتھ اس نے تکلم کیا۔ جبریل علیہ السلام نے واقعی سن کر اسے اتارا اور یقینا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ جو شخص یہ کہے کہ وہ کسی فرشتے یا بشر کا کلام ہے، اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے تکلم کا
Flag Counter