Maktaba Wahhabi

474 - 579
عربی کتاب ’’الانتقاد الرجیح بشرح الاعتقاد الصحیح‘‘ میں کتاب وسنت کی روشنی میں اچھی خاصی بحث مذکور ہے، بہت سے صحیح دلائل اور ائمہ سلف کے اقوال کے ساتھ مرقوم ہے۔ صحابہ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین اور تلامذہ ائمہ کے اقوال اس بارے میں بڑی کثرت سے مروی ہیں۔ امام محمد بن محسن عطاس رحمہ اللہ کی تالیف ’’تنزیہ الذات والصفات من درن الإلحاد والشبہات‘‘ میں کسی قدر وہ اقوال منقول ہیں، لیکن آیات واحادیث ان اقوال سے مستغنی اور بے پروا کر دیتی ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے: ’’الصباح یغني عن المصباح‘‘ یعنی صبح انسان کو ہر طرح کے چراغ سے بے پروا کر دیتی ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ حق تعالیٰ آسمان میں ہے نہ کہ زمین میں، اور خود امام صاحب نے فقہ اکبر میں فرمایا ہے: اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ میرا رب آسمان میں ہے یا زمین میں تو وہ کافر ہو گیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾[طٰہٰ: ۵] [وہ بے حد رحم والا عرش پر بلند ہوا] اس کا عرش ساتوں آسمانوں کے اوپر ہے۔ شیخ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ نے کتاب ’’ابانہ‘‘ میں اس عقیدے کی شرح کی ہے اور وہ اس کے قائل ہیں۔ شیخ عبدالقادر جیلی رحمہ اللہ جو قطب الاولیا ہیں، اسی عقیدے پر تھے۔ کتاب ’’غنیۃ الطالبین‘‘ میں، جو ان کی تحریرات مقدسہ میں سے ہے، انھوں نے اس اعتقاد کو بیان فرمایا ہے۔ پس جو لوگ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر ایمان رکھتے ہیں، ان پر یہ لازم ہے کہ وہ بال برابر بھی اس عقیدے سے تجاوز نہ کریں اور اس عقیدے کے لوگوں کے ہمرنگ ہو جائیں اور دوسروں کی آرا اور اہوا کی طرف نہ جھکیں۔ رویتِ باری تعالیٰ کا بیان: آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار، جس طرح چودھویں کا چاند دکھائی دیتا ہے، حق ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ رویت مکان میں ہو گی نہ جہت میں، مقابلہ واتصال شعاع کے ساتھ اور نہ رائی اور مرئی کے درمیان ثبوتِ مسافت کے ساتھ مگر کتاب وسنت اس سے خاموش ہیں۔ رویتِ باری تعالیٰ کی احادیث تواتر سے مروی ہیں اور آیتِ کریمہ:
Flag Counter