Maktaba Wahhabi

475 - 579
﴿وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ* اِِلٰی رَبِّھَا نَاظِرَۃٌ﴾[القیامۃ: ۲۲، ۲۳] [اس دن کئی چہرے تروتازہ ہوں گے۔ اپنے رب کی طرف دیکھنے والے] بھی اس پر دلیل ہے۔ سلف صالحین اور ائمہ مجتہدین نے اس پر اجماع کیا ہے۔ صفاتِ الٰہیہ میں جہمیہ کی گمراہی: جہمیہ نے اللہ تعالیٰ کو ایسی صفات کے ساتھ متصف بتایا ہے جو عدمِ محض کے سوا کہیں نہیں ملتیں۔ انھوں نے رویت، استوا اور تمام صفات کی نفی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں ذلیل و رسوا کرے۔ ائمہ اہلِ سنت ہمیشہ اثباتِ حق اور تردیدِ باطل میں جدوجہد کرتے رہتے ہیں، جملہ اہلِ اسلام کے لیے ان کا اتباع لازم ہے۔ فإنہم مرکز الحق۔ صفاتِ الٰہیہ ذاتِ الٰہیہ کا عین ہے یا غیر؟ کتاب اللہ میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ خدا تعالیٰ کی صفات خدا تعالیٰ کی ذات کا عین ہیں یا اس سے کوئی شے زائد ہیں، مگر اسی قدر کہ اللہ تعالیٰ صفاتِ کمال کے ساتھ متصف ہے، اس لیے صفات کی نفی کرنے والے کے حق میں بڑا خوف اور خدشہ ہے۔ جو لوگ صفات کو اللہ تعالیٰ کی ذات کا عین کہتے ہیں، جو نہ عین اور نہ غیر کہتے ہیں، اور جو صفات کو ذات پر زائد اعتبار کرتے ہیں، یہ سب لوگ ایسی باتیں کہہ رہے ہیں جن کے وہ مکلف نہیں ہیں اور اعتقادات میں وہ وہ چیزیں داخل کر رہے ہیں جو ہر گز عقائد میں داخل نہیں ہیں۔ عفا اللّٰہ تعالیٰ عنا وعنہم۔ دنیا حادث ہے: عالم اپنے جمیع اجزا کے ساتھ حادث ہے۔ وہ اجزا جو موجود ہونے سے پہلے اپنا وجود نہیں رکھتے تھے ان کا ایک ایک فرد اللہ تعالیٰ کے اختیار سے کتم عدم سے منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوا ہے اور اس کے علم و قدرت سے ہی خلعتِ وجود حاصل کی ہے۔ کسی چیز کے لیے اپنی مقرر حد سے تجاوز کرنا ممکن نہیں۔ وہ ہر روز کسی نہ کسی کام میں رہتا ہے۔ اس کی ساختِ کمال میں بے کاری کی گنجائش نہیں ہے۔ بندے کی خود مختاری: بندے اپنے افعال میں اختیار رکھتے ہیں اور اسی کے سبب انھیں ثواب ملتا اور عذاب ہوتا ہے۔ نیک اعمال اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور محبت سے ہوتے ہیں اور بد اعمال اس کی رضا اور محبت
Flag Counter